سولر پینلز پر سیلز ٹیکس ختم ہوا یا نہیں؟ گاہک اور دکان دار پریشان

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے رواں سال سولر پینلز پر 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا تھا مگر بعد میں موجودہ حکومت نے اسے ختم کرنے کا اعلان تو کر دیا تاہم تاحال دکاندار اور گاہک اس الجھن کا شکار ہیں کہ آیا یہ ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے یا نہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے رواں سال کے آغاز میں سولر پینلز پر 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا تھا۔ سابق حکومت کے اس فیصلے پر سولر ایسوسی ایشن پاکستان نے فیصل آباد میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں مطالبہ کیا تھا کہ سولر پینلز پر لگایا گیا سیلز ٹیکس فوری ختم کیا جائے۔

اس موقع پر سولر ایسوسی ایشن فیصل آباد کے صدر احمد نواز نے کہا تھا کہ سولر پینلز پر 17 فیصد سیلز ٹیکس کے نفاذ سے اس کی قیمتوں میں مجموعی طور پر 24 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوگا۔

بعد ازاں موجودہ مخلوط حکومت کے وزیر اعظم شہباز شریف نے مئی میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران سولر پینلز پر عائد 17 فیصد سیلز ٹیکس ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

پھر وفاقی بجٹ 23-2022 میں بھی یہ تجویز شامل کی گئی کہ سولر پینلز پر عائد سیلز ٹیکس ختم کر دیا جائے گا۔

حکومت کے اس اعلان سے سولر پینلز لگوانے کے خواہشمند شہریوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن مارکیٹ میں سولر پینلز کی قیمتوں میں تاحال کوئی کمی نہیں آئی ہے۔

فیصل آباد میں سولر پینلز فروخت کرنے کی سب سے بڑی مارکیٹ جھنگ روڈ پر واقع ہے۔

اس مارکیٹ میں بسم اللہ سولر کے نام سے سولر پینلز کی فروخت کا کاروبار کرنے والے محمد یاسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ گذشتہ کچھ ماہ کے دوران جس تیزی سے روپے کی قیمت کم ہوئی ہے اس صورت حال میں اگر  حکومت سیلز ٹیکس ختم کر بھی دیتی ہے تو قیمتوں میں کمی کا امکان کم ہے۔

’یہ سولر پینلز بیرون ملک سے درآمد ہوتے ہیں اور ان کی ادائیگی  ڈالر میں ہوتی ہے۔ اس لیے ابھی تک قیمتوں میں کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ سولر پینلز پر زیادہ سے زیادہ سبسڈی دے تاکہ ان کی قیمت کم  ہو سکے اور لوگوں کو اس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو سکے۔

انہوں نے بتایا کہ گذشتہ چند سالوں کے دوران ڈالر کا ریٹ تقریباً دوگنا ہو چکا ہے جس کی وجہ سے سولر پینلز کی قیمتیں بھی دوگنا سے زائد بڑھ چکی ہیں اور اگر ڈالر کو کنٹرول نہ کیا گیا تو 17 فیصد سیلز ٹیکس ختم کرنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی مارکیٹ میں بگ سن سولر کے نام سے سولر پینلز کا کاروبار کرنے والے فیضان بیگ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جو بھی گاہک آتا ہے اس کا پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ حکومت نے تو سیلز ٹیکس ختم کر دیا ہے لیکن اب تک آپ نے قیمت کم کیوں نہیں کی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں حکومت نے سیلز ٹیکس ختم کرنے کا فیصلہ کر کے اچھا اقدام کیا ہے لیکن اس کا ابھی تک  کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے عوام میں اور دکانداروں میں کنفیوژن ہے کہ کیا سیلز ٹیکس ختم ہوا ہے یا نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ سیلز ٹیکس ختم ہونے کا اعلان ہونے کے بعد سے انہوں نے بیرون ملک سے مزید سولر پینلز کی درآمد تب تک کے لیے روک دی ہے جب تک اس کا واضح نوٹیفکیشن جاری نہیں ہو جاتا ہے۔

’اس صورت حال میں گاہک بھی پریشان ہو رہے ہیں اور ہمارے لیے بھی مشکلات آ رہی ہیں، نہ ہم مال منگوا پا رہے ہیں اور نہ ہی یہ پتہ چل رہا ہے کہ آگے کیا ہو گا۔‘

سولر پینل کی خریداری کے لیے مارکیٹ میں موجود سرگودھا کے رہائشی سید علی رضا شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اپنی زرعی زمین پر لگے ٹیوب ویل کو سولر انرجی پر منتقل کرنے کے لیے سولر پینلز لینے آئے ہیں۔

’ڈیزل اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ اب اس کا استعمال ممکن نہیں ہے۔ میں نے اپنی لاگت کا حساب لگایا ہے۔ اس میں ڈیزل کے  استعمال سے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا تھا پھر ہم نے کہا کہ سولر بہتر ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ چاول کی فصل کے لیے 45 ہزار روپے فی ایکڑ صرف پانی کا خرچ آ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹیوب ویل کو سولر انرجی پر منتقل کرنے کے لیے ان کا آٹھ سے دس لاکھ روپے کا خرچ آ رہا ہے اور 45 ہزار روپے فی ایکڑ بچت سے ان کا یہ خرچ ایک سال میں پورا ہو جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا