پیپلز بس: ’جلد کراچی کی پبلک ٹرانسپورٹ کا منظر نامہ بدل جائے گا‘

سیکریٹری ٹرانسپورٹ کے مطابق کراچی کے شہریوں کی سہولت کے لیے 22 جولائی سے پیپلز بس سروس کے مزید چھ روٹس کا آغاز کردیا گیا ہے۔ پیپلز بس سروس کے کل 11 روٹس ہیں جن میں سے آٹھ روٹس اب مکمل طور پر فعال ہوچکے ہیں۔

محکمہ ٹرانسپورٹ کے مطابق غیر فعال روٹس میں نارتھ کراچی سے ڈاک یارڈ، سرجانی سے مسرور بیس اور موسمیات سے بلدیہ ٹاؤن تک کے روٹس شامل ہیں۔ (تصویر: سندھ ماس ٹرانزٹ اتھارٹی)

حکومت سندھ کی جانب سے کراچی میں پیپلز بس سروس کے آٹھ روٹ فعال کردیے گئے، جو کہ شہریوں کے لیے کم کرایوں کے باعث کسی نعمت سے کم نہیں ہیں۔ 

اس سلسلے میں سیکریٹری ٹرانسپورٹ عبدالحلیم شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’کراچی کے شہریوں کی سہولت کے لیے 22 جولائی سے پیپلز بس سروس کے مزید چھ روٹس کا آغاز کردیا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں دو روٹس پر بسیں چلائی گئی تھیں۔ پیپلز بس سروس کے کل 11 روٹس ہیں جس میں سے آٹھ روٹس اب مکمل طور پر فعال ہوچکے ہیں جب کہ باقی تین روٹس کے لیے کام جاری ہے۔

’ہمیں پر جگہ سے درخواستیں آرہی ہیں کہ پیپلز بس سروس کی مزید بسیں چلائی جائیں۔ اب تک اس منصوبے پر ہمیں بہترین رسپانس ملا ہے۔ اس منصوبے کے ذریعے ایک صاف ستھری اور آرام دہ بس سروس کا آغاز کیا گیا ہے۔ ہمارا ارادہ تھا کہ پیپلز بس سروس کو کراچی کے مرکزی علاقوں میں شروع کیا جائے مگر کراچی کے مضافاتی علاقوں میں بھی اس بس سروس کو چلایا جائے گا۔‘

محکمہ ٹرانسپورٹ کے مطابق غیر فعال روٹس میں نارتھ کراچی سے ڈاک یارڈ، سرجانی سے مسرور بیس اور موسمیات سے بلدیہ ٹاؤن تک کے روٹس شامل ہیں۔

فعال شدہ روٹس میں ماڈل کالونی سے ٹاور، نارتھ کراچی سے انڈس ہسپتال، ناگن چورنگی سے سنگر چورنگی، گلشنِ بہار اورنگی سے شان چورنگی، گلشن حدید سے ملیر کینٹ چیک پوسٹ نمبر پانچ اور نمائش چورنگی سے میکڈونلڈز سی ویو کلفٹن تک کے روٹس شامل ہیں۔

ٹرانسپورٹ سیکریٹری عبدالحلیم شیخ نے کہا: ’کراچی میں سڑکوں کی حالت انتہائی خراب ہے جس کے باعث تین روٹس پر بسیں چلانا انتہائی مشکل ہو رہا ہے اور اسی وجہ سے وہ غیر فعال ہیں۔ ان روٹس کی سڑکوں پر مرمت کا کام جلد ہی شروع کیا جائے گا مگر اس کام کے لیے کافی وقت درکار ہے۔‘

کیا پیپلز بس سروس صرف کراچی تک محدود ہے؟

عبدل الحلیم شیخ نے بتایا کہ سندھ حکومت نے صوبے کے بڑے شہروں میں میں نقل و حمل کے مسائل حل کرنے کے لیے ایک بہت بڑا منصوبہ تیار کیا ہے جس کے لیے جلد ہی مزید ہائبرڈ اور الیکٹرک بسیں منگوائی جائیں گی۔ اس منصوبے کا نام سندھ انٹرا ڈسٹرکٹ پیپلز بس سروس رکھا گیا ہے۔

ان کے مطابق منصوبے کے پہلے مرحلے میں کراچی شہر میں 200 بسیں چلائی گئی ہیں۔ 11 میں سے آٹھ روٹس کو فعال کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کراچی کے علاقے یو پی موڑ میں سات ایکڑ اراضی کا بس ڈیپو بھی بنایا گیا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ مستقبل میں کراچی میں پیپلز بس سروس کے تین اور بس ڈیپو تعمیر کیے جائیں گے جن میں مہران، کے ٹی سی، سرجانی ٹاؤن اور گلشن بہار بس ڈیپو شامل ہیں۔ دوسرے مرحلے میں لاڑکانہ میں 10.3 کلو میٹر کا روٹ شروع کیا جائے گا۔ ابتدا میں صرف ایک لمبے روٹ کا پلان بنایا گیا تھا لیکن ڈی سی لاڑکانہ کی جانب سے ایک روٹ کی بجائے چار روٹس کی تجویز دی گئی ہے۔

’لاڑکانہ میں چلنے والی پیپلز بسوں کی تعداد 10 سے بڑھا کر 16 کر دی گئی ہے۔ ابتدا میں لاڑکانہ کے علاقے ناکہ سے الٰہ آباد تک کا روٹ فعال کیا جائے گا جب کہ دیگر روٹس پر ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ کی جانب سے فراہم کئی جانے والی تجاویز کے بعد ہی غور کیا جائے گا۔ کراچی اور لاڑکانہ کے علاوہ پیپلز بس سروس کو جلد ہی سندھ کے شہر حیدرآباد، میرپورخاص، شہید بےنظیر آباد اور سکھر میں بھی شروع کیا جائے گا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’دو تین سالوں میں کراچی کی پبلک ٹرانسپورٹ کا منظر نامہ بدل جائے گا۔‘

پیپلز بس سروس میں کیا سہولیات ہیں؟

کراچی کی سڑکوں پر چلنے والی ان لال بسوں کا جب جائزہ لیا گیا تو دیکھا گیا کہ یہ بسیں 14 میٹر طویل ہیں۔ ان میں 30 نشستیں ہیں۔ ایک بس میں تقریباً 100 افراد کے کھڑے ہو کر سفر کرنے کی گنجائش ہے۔

کراچی میں چلنے والی گرین لائن بسوں کی طرح ان بسوں میں بھی مردوں، خواتین، فیملیز اور معذور افراد کی الگ الگ نشستیں ہیں۔

بسوں کے سٹاپس اور روٹس کے حوالے سے بسوں کے اندر دی ہوئی سکرین پر معلومات دی جاتی ہے۔ نشستوں کے ساتھ یو ایس بی چارجنگ پورٹس ہیں جن میں کیبل لگا کر موبائل یا دیگر الیکٹرانک آلات کو چارج کیا جاسکتا ہے۔

پیپلز بسوں کا کم سے کم کرایہ 15 روپے اور زیادہ سے زیادہ 55 روپے ہے۔

ٹرانسپورٹ سیکریٹری عبدالحلیم شیخ کے مطابق پیپلز بس سروس اور گرین لائن بی آر ٹی اب ایک دوسرے سے لنک ہوگئی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کراچی کے شہری سرجانی ٹاؤن سے نمائش چورنگی تک گرین لائن سے صرف 55 روپے میں سفر کرسکتے ہیں اور پھر نمائش چورنگی سے میکڈونلڈز سی ویو روڈ کلفٹن تک پیپلز بس میں صرف 50 روپے میں سفر کرسکیں گے۔ عام طور پر اس پورے سفر میں ایک گھنٹہ لگتا ہے اور 600 سے 1000 روپے تک کا کرایہ لگ جاتا ہے مگر اب شہریوں کو دونوں بسوں کے سنگم سے یہ سہولت حاصل ہو گی۔          

کیا عوام لال بسوں سے خوش ہے؟

جامعہ کراچی کی طالبہ وانیہ علی جو کہ روزانہ شہر میں سرکاری ٹرانسپورٹ سے سفر کرتی ہیں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میں پیپلز بس سروس کے آغاز سے کافی خوش ہوں۔ کراچی والوں کو کافی صبر کرنے کے بعد اتنی اچھی بسیں ملی ہیں، نہیں تو ہمیں چنگچی، بسوں اور رکشوں میں ہی دھکے کھانے پڑتے ہیں۔‘

’بارشوں کے بعد کراچی کی سڑکیں بے حد خراب ہوگئی ہیں۔ سڑکوں پر بہت بڑے بڑے گڑھے بن گئے ہیں۔ ان میں سے جب کوئی بھی گاڑی گزرتی ہے تو بہت دھکے لگتے ہیں۔ ایسی صورت میں کراچی کاکی روایتی پبلک ٹرانسپورٹ کسی عذاب سے کم نہیں ہے۔ البتہ یہ نئی لال بسیں اس عذاب زدہ شہر میں ایک نعمت لگتی ہیں۔‘

وانیہ علی کے بقول انہوں نے اس سے قبل گرین لائن میں بھی سفر کیا ہے مگر اس کا روٹ بہت ہی مخصوص اور مختصر ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ پیپلز بسیں کراچی میں کئی روٹس پر چل رہی ہیں۔ کوئی بھی بس سیدھی میرے گھر سے جامعہ کراچی تک نہیں جاتی مگر راستے کا بیشتر حصہ اس بس سے طے ہوجاتا ہے۔ اور میرا کرایہ بھی کافی کم لگتا ہے۔ شہر میں بے حد گرمی سے کپڑے پسینے سے تر ہوجاتے ہیں مگر اس بس میں اے سی چلنے کے باعث سفر سکون سے کٹ جاتا ہے۔‘

کراچی کے علاقے لانڈھی میں تعمیراتی سائٹ پر کام کرنے والے محمد اشرف نے بتایا: ’میں روزانہ ناگن چورنگی سے لانڈھی تک جاتا ہوں۔ مجھے یہ سفر طے کرنے میں تقریبا ایک گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔ میں معمولی سا ٹھیکے دار ہوں اور پیٹرول کی قیمتیں بڑھنے کے بعد سے میرے لیے روزانہ بائیک پر جانا کافی مہنگا پڑتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ناگن چورنگی سے لانڈھی تک کا سفر کافی طویل اور دشوار گزار بھی ہے۔ اتنے لمبے راستے پر بائیک چلانے کے دوران کئی جھٹکے لگتے ہیں اس کی وجہ سے ان کی ریڑھ کی ہڈی میں تکلیف بیٹھ گئی ہے۔‘

’مگر میری مجبوری ہے کہ مجھے اپنے ذریعہ معاش کے لیے اتنی دور جانا پڑتا ہے۔ جب تک میرا کنٹریکٹ ہے میں یہ سفر طے کرنے پر مجبور ہوں۔ میں نے کراچی کی سڑکوں پر لال رنگ کی بسیں چلتی ہوئی دیکھیں تو لانڈھی تک جانے والی بس کا معلوم کیا۔ مجھے پتہ چلا کی ناگن چورنگی سے لانڈھی روڈ تک اس بس کا ایک روٹ ہے۔ میں ایک دن اس بس میں گیا اور میرے ایک طرف کے 55 روپے لگے۔ میں نے پورا سفر آرام دہ سیٹ پر بیٹھ کر طے کیا۔ یہ بس مجھے میرے کام کی جگہ سے پانچ منٹ کے فاصلے پر اتارتی ہے اور واپسی میں بھی میں اس ہی بس میں آتا ہو۔ میری زندگی اس سے کافی آسان ہوگئی ہے۔‘

ماڈل کالونی کی رہائشی ثمینہ نے بتایا کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ پیپلز بس سروس میں سیر کے لیے ریگل چوک تک گئیں تھیں۔ انہوں نے سنا تھا کہ شہر میں گرین لائن بسیں چلنا شروع ہوئی ہیں اور وہ کافی اعلیٰ معیار کی بسیں ہیں مگر گرین لائن کا سٹیشن ان کے گھر سے بہت دور ہے اس لیے وہ اپنے بچوں کو ںہیں لے جا سکیں۔

’ہم جب پیپلز بس میں بیٹھے تو مجھے ایسا لگا جیسے ہم کسی اور ملک میں آگئے ہیں۔ رکشے کے کرائے اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ ہمیں عام بسوں میں ہی دھکے کھاتے ہوئے سفر کرنا پڑتا ہے مگر اب میں ان لال بسوں میں ہی سفر کروں گی۔ یہ کافی سستی ہیں۔ میرے بچے اس بس میں محفوظ بھی ہیں کیوں کہ ان بسوں کے دروازے آٹومیٹک ہیں۔‘
 

کراچی کے علاقے شفیق موڑ کے رہائشی محمد حماد احمد سافٹ وئیر ڈویلیپر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بچپن میں ایک بخار کے بعد ان کی سیدھی ٹانگ میں مسئلہ ہوا جس کے بعد سے وہ معذور ہیں اور بیساکھی کی مدد سے چلتے ہیں۔

’میرا آفس نیپا چورنگی پر ہے اور میں آفس جانے کے لیے بس سے ہی سفر کرتا ہوں۔ مجھے بس میں چڑھنے میں ہمیشہ بہت دشواری ہوتی ہے۔ میرے سٹاپ پر صبح کے وقت بہت رش ہوتا ہے جس کی وجہ سے بس میں چڑھنے کے دوران کافی دھکم پیل ہوتی ہے اور میں ہمیشہ پیچھے رہ جاتا ہوں۔ بس چھوٹ جاتی ہے اور میں آفس میں لیٹ ہوجاتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ان کے گھر کے پاس سٹاپ سے اب پیپلز بس بھی ملتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’میں عام بسوں کے مقابلے میں اس بس کا انتخاب کرنا پسند کرتا ہوں کیوں کہ یہ بس کافی آرام دہ ہے۔ مگر میرے علاوہ اور لوگ بھی اب عام بسوں کو چھوڑ کر اس بس میں سفر کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے صبح کے وقت رش لگ جاتا ہے اور میں اس بس میں بھی نہیں چڑھ پاتا۔ مگر ہر 20 منٹ کے وقفے کے بعد دوسری بس آتی ہے تو مجھے چڑھنے کا موقع مل جاتا ہے۔ مگر ان لال بسوں کا کیا فائدہ اگر معذور افراد کے لیے ان میں بھی کوئی ریلیف نہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان