بلوچستان میں سابقہ حکومت کے دور میں مختلف روٹس پر گرین بس سروس شروع کرنے کا مںصوبہ بنایا گیا تھا، جنہیں موجودہ حکومت نے خرید بھی لیا لیکن ان بسوں کو ابھی تک چلایا نہیں گیا اور اس کی وجہ نجی ٹرانسپورٹرز کا دباؤ قرار دیا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر ان دنوں ایک تصویر شیئر کی جا رہی ہے، جس میں ان بسوں کی تصویر کے ساتھ لکھا گیا ہے کہ حکومت بلوچستان نے عوام کو ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لیے جدید اور آرام دہ بسیں خریدی تھیں، لیکن ’نجی ٹرانسپورٹرز کے دباؤ پر انہیں سڑکوں پر نہیں لایا جا رہا اور بعدازاں انہیں کوڑیوں کے مول بیچ دیا جائے گا۔‘
ان تصاویر کے بعد صوبائی حکومت کو بھی جواب دینا پڑا اور محکمہ تعلقات عامہ کی طرف سے جاری بیان میں ان بسوں کے حوالے سے وضاحت دی گئی۔
ترجمان حکومت بلوچستان فرح عظیم شاہ نے اپنے بیان میں کہا کہ سوشل میڈیا پر بسوں کی خریداری کے حوالے سے غلط تاثر پیدا کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا: ’گذشتہ دور حکومت میں کسی منصوبہ بندی اور روٹس کی نشاندہی کے بغیر بسوں کی خریداری کی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’یہ بسیں دو ہفتہ قبل یعنی 29 جون کو کوئٹہ پہنچی ہیں۔ اس ضمن میں سیکریٹری محکمہ ٹرانسپورٹ کی جانب سے قابل عمل منصوبہ بندی کی سمری ارسال کی گئی ہے، جس میں شامل تجاویز پر جلد فیصلہ کر لیا جائے گا۔‘
دوسری جانب سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے بھی ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا: ’یہ منصوبہ 2020 میں شروع کیا گیا تھا، جسے پہلے مرحلے میں کوئٹہ اور بعد میں صوبے کے بڑے شہروں میں شروع کرنا تھا تاکہ لوگوں کو ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولت میسر ہوسکے۔‘
جام کمال نے مزید لکھا: ’سوچ یہ تھی کہ ابتدائی طور پر نواں کلی، ہنہ، سبزل روڈ، جوائنٹ روڈ، قمبرانی روڈ، شاہوانی روڈ اور پھر کوئٹہ بائی پاس پر نئی تعمیر شدہ سڑکوں پر انہیں چلانا تھا، جن کے لیے باقاعدہ بس سٹاپ اور انتظار گاہ کی سہولت بھی میسر کی جانی تھی۔‘
ساتھ ہی جام کمال نے شکوہ کیا: ’ایک کے بعد ایک منصوبے میں غفلت برتی جارہی ہے یا انہیں سرد خانے کی نظر کیا جا رہا ہے۔‘
After many efforts and deliberations, in 2020 this project was started for #Quetta and for major towns of #Balochistan. So that we start giving people of Quetta and balochistan a decent public transportation. Abandoning this is a waste of public money and depriving people. pic.twitter.com/23GV4QDwsP
— Jam Kamal Khan (@jam_kamal) July 17, 2022
کہا جارہا ہے کہ یہ بسیں اس وقت صوبائی ڈیزاسٹر مینیجمںٹ اتھارٹی کے دفتر میں کھڑی ہیں۔
علی احمد نامی ایک صارف نے ٹوئٹر پر لکھا: ’ذرائع سے معلوم ہوا کہ یہ بسیں حکومت بلوچستان نے کوئٹہ میں پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے خریدی تھیں، لیکن مبینہ طور پر مقامی بس یونینوں کی دباؤ کی وجہ سے انہیں کوئٹہ میں ہی کھڑا کردیا گیا ہے۔‘
— Ali Ahmed (@AliAhme12663016) July 17, 2022
ایک اور صارف رحمت اللہ کاکڑ نے ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے کہا: ’سابق وزیراعلیٰ جام کمال نے عوامی سہولت کی خاطر یہ اقدام اٹھایا تھا۔ افسوس اس نااہل اور کرپٹ حکومت پر۔‘
رحمت اللہ مزید لکھتے ہیں: ’جو اپنے ذاتی مفاد کے لیے ایسے منصوبے روک دیتے ہیں۔ جو بھتہ انہیں نجی کمپنیوں سے ملتا ہے۔ وہ ایسے عوامی مںصوبوں سے کہاں ملے گا۔‘
جی آر آرزو کے نام سے ایک صارف نے لکھا: ’قدوس بزنجو خواب خرگوش میں ہیں۔ انہیں کیا پتہ کہ حکومت کیسے چلائی جاتی ہے؟ جام صاحب ذہین تھے۔ ان کے پاس بلوچستان کی ترقی کا ایک مشن تھا۔ جو ہم مفاد پرست نہیں سمجھ سکے۔‘
قدوس بزنجو خواب خرگوش میں اسکو کیا پتہ حکومت کیسے چلاہی جاتی ھے ۔ اسکے کارندے سب کھتران جیسے لکیر کے فقیر ۔جام۔صاحب ایک ذہین تھا اسکے پاس اسکے۔دماغ میں ترقی بلوچستان کا ایک مشن تھا جو ھم مفاد پرست نہیں سمجھ سکے ۔
— Gr Arzoo (@gr_arzoo) July 17, 2022
انجینیئر عزیز سالارزئی نے تبصرہ کیا: ’اتنا غلط فیصلہ۔ آپ خود سوچیے کہ کوئٹہ کی سڑکیں ان بڑی بڑی بسوں کے لیے ہیں؟ بس فضول میں پیسہ خرچ کرنا ہے اور اپنی جیبیں بھرنی ہیں۔ میں افسران بالا سے گزارش کرتا ہوں کہ ان ظالموں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، جو غریب عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے کھیلتے ہیں۔‘
اتنا غلط فیصلہ آپ خود سوچئے کوئٹہ کے سڑک ان بڑی بڑی بسسز کے لئے ہیں ۔ بس فضول میں پیسہ خرچ کرنا ہے اور اپنے جیبیں برنی ہے ۔ میں افسران نے بالا سے گزارش کرتا ہوں کہ ان ظالموں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے جو غریب عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے کھیلتے ہیں۔
— Engr. Aziz Salarzai (@salarzaiaziz1) July 17, 2022
ڈاکٹر اے ایم بلوچ نے لکھا: ’کم سے کم ان بوسیدہ بسوں سے تو جان چھڑانا چاہیے۔ مچے مونا، او رکشہ، سریاب سریاب۔‘
یہ وہ نعرے ہیں، جو لوکل بس چلانے والے روزانہ سڑکوں پر چلاتے ہوئے لگاتے ہیں۔
کم سے کم ان بوسیدہ بسوں سے تو جان چھڑانا چاہئیے ہے ،
— Dr A.M Baloch (@mansori_dr) July 17, 2022
مَچ مونی ، او رکشہ ، سریاب سریاب
اس منصوبے کے حوالے سے 15 جنوری 2021 کو ہونے والے ایک اجلاس میں سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے کہا تھا کہ شہریوں کو جدید سفری سہولیات کے لیے خاص طور پر گرین بس پروجیکٹ اہمیت کا حامل ہے۔
انہوں نے بتایا تھا کہ پہلے مرحلے میں خواتین کے لیے دو بسیں چلائی جائیں گی جب کہ کل آٹھ بسیں گرین منصوبے کے تحت شہر میں چلائی جائیں گی۔
سیکرٹری ٹرانسپورٹ نے اجلاس کو بتایا کہ گرین بس کے لیے دو روٹس کا انتخاب کیا گیا ہے۔ پہلا روٹ سرینا چوک تا بلیلی چیک پوسٹ تک ہوگا جبکہ روٹ پر 11 بس سٹاپ بنائے جائیں گے۔