’پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنا ہے تو مرد ساتھ لائیں‘

گلگت میں خواتین کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کی کوئی سہولت موجود نہیں جس کی وجہ سے انہیں سوزوکی گاڑیوں میں مردوں کے درمیان پھنس پھنسا کر سفر کرنا پڑتا ہے۔

گلگت کی سوزوکیاں جو خواتین کے لیے ڈراؤنے خواب سے کم نہیں (شیریں کریم)

گلگت کے نواحی علاقے دنیور میں سوزوکی سٹینڈ پر موجود کنڈکٹر بلند آواز سے نعرے لگا رہا تھا ’گلگت، گلگت، گلگت۔‘

صائمہ بھی یہ نعرہ سنتے ہی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر جا کر بیٹھ گئی اگر اس کو یہ یاد ہی نہیں رہا کہ گلگت بلتستان میں عورتوں کے پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے کے لیے یہ شرط مختص ہے کہ اپنے ساتھ مرد لائیں یا پھر گھر بیٹھیں۔

صائمہ بھی جو آج سوزوکی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھی ہیں اسی شرط کی زد میں آنے والی ہے۔ بس اسی لمحہ کنڈکٹر کی آواز آتی ہے، ’بی بی جی آپ فرنٹ سیٹ پر کیوں بیٹھی ہیں؟ یا تو دو سواریوں کا کرایہ دیں یا پھر پیچھے چلی جائیں اور اگر پیچھے نہیں جانا تو سوزوکی سے اتر جائیں۔‘

یہ سنتے ہی صائمہ کو غصہ آ گیا اور وہ گاڑی کے کنڈکٹر سے بحث کرنے لگی کہ ’میں مردوں کے ساتھ پیچھے کیسے بیٹھوں گی؟ میرے ساتھ کوئی نہیں، تم کسی عورت کو میرے ساتھ آگے بھیج دو۔‘

’دوسری کوئی عورت نہیں ہے۔ آپ کو پیچھے آنا ہو گا،‘ کنڈکٹر کے یہ کہنے پر صائمہ کو آخر اٹھ کے پیچھے جانا ہی پڑا کیونکہ وہ دو سواریوں کا کرایہ برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ وہ پیچھے جا کر بیٹھ گئی اور اپنا پرس ساتھ رکھ دیا۔ اب سوزوکی وین کے تنگ خول کے اندر اس کے آگے پیچھے سب مرد ہیں۔

صائمہ سے جب ان مشکلات کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم عورتوں کے ساتھ روزانہ ایسا ہی ہوتا ہے، یا تو سیٹ نہیں ملتی یا پھر مردوں کے ساتھ جا کے کہیں گھس کے بیٹھنا پڑتا ہے۔‘

ملک کے بیشتر دیگر حصوں کی طرح گلگت بلتستان میں بھی عورتوں کو پبلک ٹرانسپورٹ کی کوئی سہولت میسر نہیں۔ نہ یہاں میٹرو سروس کی بسیں یا ٹرینیں چلتی ہیں اور نہ ہی پنک بسوں کی سہولت موجود ہے۔ یہاں کی عورتوں کو روزانہ سفر کرنے میں ان گنت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ عورتیں سفر کرنے سے ہی کتراتی ہیں۔ آخر وہ کیوں نہ کترائیں جب ان کو معلوم ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں جا کے خوار ہونا ہے اس سے اچھا گھر پر ہی رہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 اسی خواری کا مزید ذکر کرتے ہوئے صائمہ نے قصہ سنایا، ’اگلی سیٹ پر ایک دفعہ میرے ساتھ ایک صحت مند خاتون بیٹھی تھیں جس کی وجہ سے میرا کندھا ڈرائیور کے کندھے کے ساتھ لگ رہا تھا جو میرے لیے عجیب اور شرم کی بات تھی۔ میری ٹانگیں بھی گیئر لیور کے ساتھ جڑی ہوئی تھی اور سوزوکی کے گیئر بھی نہیں لگ رہے تھے۔ اس کے علاوہ دو خواتین ایک سیٹ پر بیٹھ جانے کی وجہ سے ڈرائیور کا ہاتھ بھی میرے جسم کو چھو رہا تھا جو کوئی بھی خاتون برداشت نہیں کر سکتی، اور باجود اس کے کہ میں نے ڈرائیور کو بار بار بتایا کہ وہ اپنے ہاتھوں کو دور رکھے مگر وہ باز نہ آیا اس کے ہاتھ مجھے چھوتے رہے اور اس وجہ سے مجھے اپنے سٹاپ سے پہلے ہی اترنا پڑا۔‘

صائمہ کی یہ بات سنتے ہی اس کے ساتھ بیٹھی خاتون نسیم بھی بول پڑیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ بھی ایسے ہی کئی واقعات پیش آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’شکایت کرنے پر جب میں نے کنڈکٹر سے کہا کہ مجھے کہیں اور بٹھائے اس نے میری ایک نہ سنی اور پورا سفر میرے لیے اذیت بن گیا۔‘

نسیم کا کہنا تھا کہ اس دن میں نے یہ تہیہ کیا کہ میں آئندہ کبھی بھی اس گاڑی میں سفر نہیں کروں گی۔ مگر میری مجبوری کی وجہ سے آج پھر میں اس گاڑی میں موجود ہوں۔ بڑی غمزدہ آواز میں نسیم نے کہا کہ ’آخر عورت کیا کر سکتی ہے۔ گلگت میں پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنا ہے تو مرد کو ساتھ لانا پڑتا ہے، اب ہر عورت ہر وقت مرد کو ساتھ تو نہیں لا سکتی، اور اس مجبوری کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے والی عورت کو بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘

یاد رہے کہ گلگت بلتستان میں پبلک بسوں کا کوئی وجود نہیں۔ یہاں پر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے چھوٹی سوزوکی گاڑیوں پر سفر کرنا پڑتا ہے۔ اور اس چھوٹی سی گاڑیوں میں مرد اور عورتوں کے لیے الگ الگ جگہ نہیں۔ مختصر بات یہ ہے کہ دنیور سزوکی سٹینڈ سے گلگت شہر جانے والی عورتوں کے ساتھ بدتمیزی ، نوک جھونک اور ان کو بلاوجہ تنگ کرنا ایک معمول بن گیا ہے۔

اس معاملے کے بارے میں جب پولیس حکام سے پوچھا گیا کہ عورتیں پبلک ٹرانسپورٹ میں بہت تکلیف کا سامنا کرتی ہیں تو ان کی شکایات کا ازالہ کرنے کے لیے آپ نے کیا اقدامات کیے ہیں؟

اس کا جواب ڈی ایس پی ٹریفک پولیس گلگت نے یوں دیا کہ ہم نے تو اگلی سیٹ پر دو خواتین بٹھانے پر پابندی عائد کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی طرف سے سخت ہدایات جاری ہیں کہ ’اگر کسی نے دو خواتین کو فرنٹ سیٹ پہ بٹھایا تو اس گاڑی اور ڈرائیور کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔‘

جب پوچھا گیا کہ یہ قدم کیوں اٹھایا گیا تو ڈی ایس پی ٹریفک نے بتایا کہ ’گلگت میں کئی بار دو خواتین کو فرنٹ سیٹ پر بٹھا کر ان کو ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی اور خواتین سے شکایت موصول ہونے کے بعد کافی دفعہ ڈرائیور کو گرفتار کیا گیا اور جب واقعات بڑھنے لگے تو گلگت ٹریفک پولیس نے دو خواتین کو فرنٹ پر بٹھانے پر پابندی عائد کر دی۔‘

اب دکھ کی بات یہاں یہ ہے کہ ان تمام پابندیوں کے باوجود سوزوکی میں آج بھی فرنٹ سیٹ پر دو خواتین نظر آتی ہیں۔ ظاہر ہے سوزوکی گاڑی کا کنڈکٹر ایک اکیلی عورت کو فرنٹ سیٹ پر کیسے بیٹھنے دے گا، کیونکہ وہ دو سیٹوں پر بیٹھ کے ایک سیٹھ کا ہی کرایہ دے گی اور یہ بات سوزوکی گاڑی کے مالکان کو برداشت نہیں۔

جب ڈرائیور حضرات سے اس کے بارے میں دریافت کیا گیا ان کا موقف تو کچھ اور ہی تھا۔

ڈرائیور علی غلام گذشتہ 20 سالوں سے دنیور سے گلگت سوزوکی چلاتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ ’مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں کہ سوزوکی کی فرنٹ سیٹ پر ایک خاتون بیٹھے یا دو، یہ ان کی مرضی ہے۔ میں نے کبھی کسی یہ نہیں کہا کہ آپ دو بیٹھ جائیں، سب خواتین ہماری بیٹیوں اور ماؤں کی طرح ہیں اور اور ہم اپنی بیٹیوں اور ماؤں کی عزت کرتے ہیں۔‘

اگر اس ڈرائیور کی یہ بات صحیح ہو تو خواتین کو کوئی مسئلہ ہی نہ ہو کاش یہ ایسا ہوتا جیسا یہ ڈرائیور بیان کر رہا ہے۔

رکن اسمبلی گلگت بلتستان دلشاد بانو کہتی ہیں کہ ’ہمیں اس بات کا اندازہ ہے کہ گلگت بلتستان کی خواتین کو پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے میں کافی دشواری کا سامنا ہے اور انہیں ہراساں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’میری کوشش ہو گی کہ خواتین کے مسائل کو حل کرنے کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کروں، پبلک ٹرانسپورٹ کے حوالے سے خواتین نے کافی شکایات کی ہیں جس کے بعد ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ گلگت شہر اور مضافات میں خواتین کے لیے الگ ٹرانسپورٹ کی سہولت مہیا کی جائے۔‘

دلشاد بانو کا مزید کہنا ہے کہ ایک کروڑ سے زائد مالیت کا پراجیکٹ منظور کیا گیا جس کے تحت چھ عدد گاڑیاں مقررہ اوقات میں خواتین کو سفری سہولیات فراہم کریں گی۔

 صائمہ اور نسیم جنہوں نے پبلک ٹرانسپورٹ میں عورتوں کے مسائل کی تصویر کھینچی، ان کا کہنا ہے کہ ’ملازمت پیشہ خواتین اپنے لیے ذاتی گاڑیاں خرید لیں اور دیگر خواتین کو اپنے ساتھ بٹھا لیا کریں کیونکہ خواتین ہی ایک دوسرے کے مسائل بہتر طریقے سے سمجھ سکتی ہیں۔‘

مگر یہاں دکھ بھری بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں ہر عورت اپنی گاڑی نہیں خرید سکتی۔ اسی لیے ان جیسی ہزاروں خواتین کو انتظار ہے کہ حکومت کب اپنے وعدے پر عمل کرتے ہوئے خواتین کے لیے الگ ٹرانسپورٹ کا بندوبست کرتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دفتر