یادِ ’بارش‘ عذاب ہے یا رب

کراچی میں چند برسوں کے وقفے سے ایک بڑی بارش ضرور برستی ہے جو ایسے اثرات چھوڑ جاتی ہے جس کی یاد دھندلی ہو تو ہو، محو نہیں ہوتی۔

نو جولائی 2022 کو کراچی میں طوفانی بارشوں کے بعد ایک موٹرسائیکل سوار خاندان سڑک پر کھڑے پانی سے گزرنے کی کوشش کر رہا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

یہ تحریر آپ کالم نگار کی زبانی یہاں سن بھی سکتے ہیں:


آج کل یوں تو سارے پاکستان میں برسات کا موسم ہے اور رم جھم نے سماں باندھ رکھا ہے، لیکن کراچی کی حالیہ بارشوں کا تذکرہ زبان زدِ عام ہے۔ ظاہر ہے کہ مون سون کے دوران بارشیں نہیں برسیں گی تو کیا ہن برسے گا کہ بقولِ شاعر ؎ بارشیں تو ہوتی ہیں بارشوں کے موسم میں۔

کراچی میں ہر سال نہ سہی تو چند برسوں کے وقفے سے ایک بڑی بارش ضرور برستی ہے، جو ایسے اثرات چھوڑ جاتی ہے جس کی یاد دھندلی ہو تو ہو، محو نہیں ہوتی۔

یہ 2003 کے موسمِ برسات کی طوفانی بارشوں کا ذکر ہے۔ مجھے جیو نیوز میں بزنس ایڈیٹر کی ذمہ داریاں سنبھالے ایک سال ہوا تھا۔ میں اور میری ٹیم سر جھکا کر کام کر رہے تھے جب شام کو سٹاک مارکیٹ بند ہونے کے بعد ساری فنانشل نیوز کا بلیٹن تیار ہوا اور باہر جھانکنے کی فرصت ملی تو اس وقت تک آئی آئی چندریگر روڈ پہ کمر تک پانی کھڑا ہو چکا تھا۔

اب حالت یہ تھی کہ خود سے گھر جانا ناممکن تھا اور جو گاڑی بھی سٹاف کو گھر لے جانے کے لیے نکلتی تھی وہیں سڑک پہ پانی میں بند ہو جاتی تھی۔ کئی گاڑیوں کی ناکامی کے بعد انتظامیہ نے بڑی وین منگوائی کیونکہ ایک شفٹ کو کام کرتے کئی گھنٹے ہو چکے تھے اور کچھ لوگوں کو گھر پہنچانا ضروری ہو گیا تھا۔

قسمت کی مہربانی سے مجھے بھی گھر جانے کا موقع ملا اور ہم کوئی درجن بھر لوگ وین میں سوار ہو گئے۔ ہمیں دفتر کے دروازے سے وین میں بٹھانے کے بعد ڈرائیور گاڑی کو پانی والی سڑک کے بیچ میں ایسے لایا جیسے کنارے سے گہرے سمندر میں کشتی اترتی ہے۔ لیکن وہ گاڑی تھی، کشتی نہ تھی کہ پایابی سے گہرائی کی سمت سفر کرتے ہوئے سبک سر سے تیز تر ہو جاتی۔ یہ گاڑی خشکی پہ چلنے کے لیے بنی تھی، لہٰذا اس کے انجن نے منہ زور گھوڑے کی طرح آگے بڑھنے سے انکار کر دیا اور ہنہنا کر خاموشی اختیار کر لی۔

ہم جدّی پشتی لاہوریے، نقل مکانی کے بعد پہلے اسلام آباد اور پھر کراچی کچھ عرصہ پہلے ہی شفٹ ہوئے تھے۔ اسلام آباد میں تقریباً ایک دہائی گزارنے سے بارش ایک معمول لگنے لگی تھی کہ اکثر ہوتی رہتی تھی اور پہاڑی علاقوں میں برستا پانی کہاں ٹھہرتا ہے، سو اس نظارے سے بھی مدت سے محروم تھے جو لاہور سے وابستہ اپنے بچپن اور نوجوانی کی یادوں میں محفوظ ہے کہ برسات میں گلیوں میں ٹخنوں ٹخنوں پانی کھڑا ہے اور گھر سے نکل کر دیو سماج روڈ سے گزرتے ہوے سکول یا کالج جاتے ہوے بس سٹاپ کی جانب ان ہلتی ہوی اینٹوں پہ باری باری احتیاط سے قدم دھرتے جا رہے ہیں جو مہربان خدائی خدمت گاروں نے سڑک کے کنارے وہاں رکھ دی ہوتی تھیں جہاں سڑک کے درمیان کی نسبت کم پانی کھڑا ہوتا ہے۔

اسلام آباد کی بارشوں نے البتہ ان نظاروں سے محروم ہی رکھا، لیکن کراچی کے چندریگر روڈ نے جس نئے اور انوکھے تجربے سے روشناس کیا اس کا الگ ہی مقام ہے۔ اب صورتِ حال یہ تھی کہ بند انجن والی وین کے مسافروں کو یعنی ہم سب کو سڑک کے کنارے قدرے اونچی جگہ پہنچنے کا ٹارگٹ ملا جس پہ عمل درآمد کے لیے سب سواریوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا اور کمر کمر تک ڈوبے ہوے ڈرتے ڈرتے کنارے کی طرف چل دیے۔

اس دوران بجلی کے ٹوٹے ہوئے تاروں کے کرنٹ لگنے والوں کی خبریں سب کے ذہنوں میں گھوم رہی تھیں اور لبوں سے دعائیں نکل رہی تھیں۔ ہمارے ساتھ ادارے کے پریزیڈنٹ محترم عمران اسلم بھی تھے جنہوں نے سب کو تسلی دی۔ کنارے پہ پہنچ کر بڑی بس کا انتظام کروایا اور ہمیں آدھی رات سے پہلے گھروں تک پہنچایا۔ اس دن ان کے پرسکون انداز اور بحران سے نمٹنے کے طریقوں نے ہمیں بہت کچھ سکھایا۔

پھر نئے چینل آج نیوز میں 2005 کی برسات آئی جب گرو مندر پہ واقع بزنس ریکارڈر ہاؤس سے ڈیفنس آتے ہوئے آدھی ڈوبی ہوی گاڑی میں گھر تک پہنچنے کا مشن پورا کرنا پڑا۔ راستے میں گاڑی کو بند نہ ہونے دینے کی کاوشوں نے مشکل مراحل سے نمٹنے کا تجربہ فراہم کیا۔ ایسے تجربات کبھی بیکار نہیں جاتے اور زندگی میں آگے چل کر کئی جگہ کام آتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تیسری انتہائی خوفناک بارش دو سال پہلے 2020 میں برسی جب کرونا کے خوف کے بادل پہلے ہی اندر باہر چھائے ہوئے تھے۔ ایسی تیز، مسلسل اور کئی دن تک برسنے والی بارش کو سہنا بھی ایک الگ ہی تجربہ تھا۔

علاقے کی بجلی بند رہنے کے بعد دو تین دن تک تو گھروں میں جنریٹرز نے ساتھ دیا پھر پیٹرول، ڈیزل ختم ہونے کے بعد وہ بھی ہار مان گئے۔ اب پیٹرول کہاں سے آئے کہ تمام پیٹرول پمپ بند تھے۔ مدتوں کے بعد گھروں میں موم بتیاں ڈھونڈی جا رہی تھیں۔ موبائل فون چارج نہ ہونے کی وجہ سے رابطے منقطع ہو چکے تھے۔ وہ رات میرے ذہن پہ نقش ہے جب ٹمٹماتی موم بتی کی روشنی میں عجب خوف کا ماحول تھا، جس میں گرجتے بادل، کڑکتی بجلی اور لگا تار تیز بارش کی آوازیں مسلسل اضافہ کیے جا رہی تھیں، لگتا تھا کہ یہ بارش کبھی نہیں رکے گی۔

ڈیفنس کے علاقے میں کوئی گھر ایسا نہیں تھا جس کا تہہ خانہ ہو اور وہ پانی سے بھر نہ چکا ہو۔ مجھے ایک مصّور کا غم زدہ چہرہ نہیں بھولتا جس کی عمر بھر کی ریاضت، اس کی بنائی ہوئی تمام پینٹنگز تہہ خانے میں پانی بھرنے سے تباہ ہو گئیں۔ ایک دانشور کی جمع کی ہوئی نایاب کتابیں بھی ایسی ہی تباہی کی زد میں آ گئیں۔

بےشمار اور ایسے واقعات ہوئے جس میں قیمتی اور جذباتی وابستگی والی اشیا نذرِ بارش ہو گئیں، لیکن اس نقصان کا ان انسانی جانوں سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا جن کے جانے کی وجہ ان طوفانی بارشوں سے ہی منسلک ہے۔

اس کے علاوہ دروازوں، کھڑکیوں اور چھت سے ٹپکتی بارش نے ہر گھر میں تباہی مچائی۔ اتنے گھر متاثر ہوئے کہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی نے چھ مہینے تک بغیر پیشگی اجازت کے گھروں میں مرمت کی اجازت دے دی جو عام حالات میں ضروری ہوتی ہے۔

یہ تین بارشوں اور تین علاقوں کی روداد ہے۔ آئی آئی چندریگر روڈ، گرو مندر اور ڈی ایچ اے۔ تینوں مختلف علاقے ہیں اور اپنی اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں۔

ان یادوں سے اختر انصاری اکبر آبادی کا شعر یاد آیا۔

یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

اب جولائی 2022 میں پھر بارشیں برس رہی ہیں، بہت سے علاقوں میں صورتِ حال بہتر بھی ہے۔ بجلی کے کھمبوں سے چمٹ کر اور تاروں کے ٹوٹنے سے پانی میں کرنٹ لگنے سے ہونے والے حادثات میں نمایاں کمی آئی ہے۔

ویسے تو یہ بات زمینی حقائق سے جڑی ہے کہ جب برسنے والے پانی کی مقدار بہہ کر نکل جانے والے پانی سے بہت زیادہ ہو گی تو پانی کی سطح بڑھنا شروع ہو جائے گی جیسا کہ زیادہ بارشوں میں عام مشاہدہ ہوتا ہے۔

لیکن یہاں بات اتنی سادہ بھی نہیں، پانی کے تیز بہاؤ کو انسان اگر خود اپنے اغراض کی خاطر مصنوعی رکاوٹوں سے روکے گا تو پھر وہی ہو گا جو ہو رہا ہے۔ ندّی نالوں اور بہاؤ کے قدرتی راستوں پر عمارات کی تعمیر نے اس مسئلے کو بڑھانے میں پورا کردار ادا کیا ہے۔ اس کے علاوہ کراچی کا پیچیدہ انتظامی ڈھانچہ اس مسئلے کو حل نہ کر پانے کا ذمہ دار ہے لیکن وفاق کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جس میں کوئی اگر پوچھ کے کئی ایک قدرتی آفات سے بچاؤ کا ادارہ بھی ہے، اس کی نظِرکرم ادھر کیوں نہیں؟ 

مدّت سے پنپتی ہوئی سازش نے ڈبویا
کہنے کو مرے شہر کو بارش نے ڈبویا!

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ