جرمنی: ’ویزوں میں تاخیر سے طلاقیں ہورہی ہیں‘

احتجاج کا مقصد اس عمل میں تیزی لانا ہے جس سے پاکستان سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے جرمنی آنے والوں کے ویزے میں تاخیر ہوتی ہے۔ اس میں وہ فیملی ری یونین ویزے بھی شامل ہیں جن کے اجرا کے لئے وقت بڑھتے بڑھتے تین سالوں پر چلا گیا۔

اس احتجاج میں پاکستانی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔   (سکرین گریب)

جرمنی میں مقیم پاکستانی افراد کے فیملی ری یونین ویزے میں تاخیر پر برلن میں جرمن وزیر خارجہ کے آفس کے باہر ایک احتجاج ریکارڈ کرایا گیا۔

اس احتجاج میں پاکستانی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

اس احتجاج کا مقصد اس عمل میں تیزی لانا ہے جس سے پاکستان سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے جرمنی آنے والوں کے ویزے میں تاخیر ہوتی ہے۔ اس میں وہ فیملی ری یونین ویزے بھی شامل ہیں جن کے اجرا کے لئے وقت بڑھتے بڑھتے تین سالوں پر چلا گیا۔

جرمنی میں پڑھائی کی غرض سے یا نوکریوں کے حصول کے لئے آنے والے افراد کے خاندانوں کے ساتھ ویزے کے معاملے میں پاکستان میں موجود جرمن سفارت خانے کی جانب سے تاخیر سے ویزا دینے اور ان کے ساتھ ناروا سلوک کے خلاف یہاں برلن میں ایک احتجاج منقعد کیا گیا جس میں نہ صرف ان افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی جن کی بیگمات کو ویزا دینے میں مسلسل تاخیر کی جارہی ہے بلکہ پاکستانی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی بھرپور شرکت کی۔

احتجاج میں شامل افراد کا کہنا تھا کہ جرمنی میں جاب ویزا تو تین ماہ میں مل جاتا ہے مگر اپنی فیملی کو یہاں بلانے کے لئے تین سال انتہائی تکلیف دہ ہیں۔

درخواست گزاروں کے مطابق 18 ماہ سے 21 ماہ صرف اپائٹمنٹ کے لئے انتظار کروایا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ کہا جاتا ہے کہ اس کے بیچ میں انہوں نے پوچھنا نہیں ہے اس معاملے سے متعلقم اور اتنے ماہ کے بعد اگر وقت مل بھی جائے تو اگر کہیں کوئی کوتاہی رہ جائے تو چھ سے آٹھ ماہ مزید یا پھر ایک سال  لگ جاتا ہے، جس میں فیملیز کو مکمل الگ رکھا جاتا ہے۔

اس تاخیر کا ایک بہت بڑا منفی پہلو یہ ہے کہ اگر کسی کا یہاں سٹڈی ویزا ہے اور اس میں تاخیر ہوجائے تو سمیسٹر اور فیس دونوں ضائع ہوجاتے ہیں۔

لوگوں کے مطابق اسی طرح اگر فیملی ری یونین میں تاخیر ہونے کی وجہ سے لوگوں کے گھر ٹوٹ رہے ہیں، ان کو طلاقیں ہورہی ہے۔ پاکستان میں موجود فیملی طرح طرح کے شکوک و شبہات میں مبتلا ہوکر طلاق کا مطالبہ کردیتی ہے۔

احتجاج کا انتظام کرنے والے ڈاکٹر محمد الیاس نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ برلن میں پچھلے نو سال سے آباد ہیں اور پیشے کے اعتبار سے وہاں ایک فارماسسٹ ہیں اور انہوں نے اپنی اسی شعبے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کررکھی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 2019 میں انہوں نے پاکستان میں شادی کی جس کے 17 ماہ بعد انہیں اپائٹمنٹ دی گئی اور اس پر مزید 13 ماہ ویزا ملنے کے عمل پر لگے۔

’11 ماہ صرف ہمارے کاغذات کی تصدیق میں لگائے ہیں۔‘

’یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے وہاں جب کہ اگر کوئی شخص دبئی جیسے ملک سے ویزا اپلائی کرے تو ڈیڑھ ہفتے میں اسے اپائٹمنٹ مل جاتی ہے اور دو دن میں ویزا جاری کردیا جاتا ہے۔ جب کہ پاکستان میں یہ وقت 30 ماہ تک چلا گیا ہے۔‘

ان کے بقول جرمنی میں ان کو یہ افراد تو چاہئے ہیں کام کرنے کے لیے مگر ان کےخاندان نہیں۔

’ہم اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد ہیں اور یہاں اچھی نوکریاں کررہے ہیں، سالانہ 15000 یورو ان کو ٹیکس ادا کررہے ہیں پھر بھی یہ پاکستان میں ویزا کے اجرا میں تاخیر کررہے ہیں۔ مسئلہ ان کو صرف پاکستان سے ہے مگر کیوں ہے یہ میری سمجھ سے باہر ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈیڑھ سو طالب علموں کا داخلہ یہاں کی مختلف جامعات میں ہوچکا ہے اور جنوری 2022 سے وہ اپنی اپائٹمنٹ کا انتظار کررہے ہیں جو کہ اب تک ان کو نہیں ملی۔

ستمبر میں ان طلبہ کے داخلے ختم کردیئے جائیں گے کیونکہ ستمبر اکتوبر میں ان کی کلاسسز شروع ہونی ہوتی ہیں۔

ان افراد کے مطابق ان ہی سب چیزوں کو دیکھتے ہوئے انہوں نے یہاں احتجاج منعقد کیا ۔

وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی اس موقع پر وہاں پہنچ کر احتجاج کرنے والوں سے بات چیت کی اور انہیں اس مسئلے کے حل کی یقین دہانی کرائی۔

میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ انہیں معلوم ہے کہ کچھ ممالک میں ویزا حاصل کرنے کے عمل میں مشکلات درپیش ہیں۔

’خاص کر فیملی ری یونین ویزا کے حصول کے لئے لمبا انتظار کرنا پڑتا ہے۔

مگر اس مسئلے کی وجہ خاص کر وہ دو سال ہیں جن میں عالمی وبا پھیلی تھی۔ اب بہت سارے لوگوں کو سفر کرنا ہے۔ جس کی وجہ سے ویزا کی درخواستیں بہت زیادہ جمع ہوگئی ہیں اور جرمن ایمبسی میں عملے کی کمی کی وجہ سے مشکلات پیش آرہی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ اب وہ کوشش کر رہے ہیں کہ انتظار کے اس لمبے عرصے کو کم کرکے جلد از جلد ویزے جاری کئے جائیں۔

اسی طرح احتجاج میں شامل ایک خاتون نے اپنی کہانی سناتے ہوئے بتایا کہ شادی کے 18 ماہ تک تو وہ کہتے ہیں کہ پوچھیں ہی مت اس کے بعد کہیں جا کر ویزے کا عمل شروع کرنے کے لئے تاریخ دی جاتی ہے جو تین سال پر محیط ہوسکتا ہے۔

’اس تین سال کے عرصے کے دوران میرے والدین انتقال کرگئے۔ میرے سسر کا انتقال ہوا۔ مجھے اس غم کے وقت میں اپنے شوہر کی ضرورت تھی مگر میں ان کے پاس نہیں تھی۔ اسی دوران میرا بچہ ڈیڑھ سال کا ہوگیا۔‘

پاکستانی کمیونٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے احتجاج میں شامل ایک شخص کا کہنا تھا کہ جن پاکستانیوں کو اب تک ویزا نہیں جاری کیا گیا وہ ان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لئے یہاں جمع ہوئے ہیں۔

احتجاج میں شامل افراد نے اپنے ہاتھوں میں مختلف بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر مختلف طرح کے نعرے درج تھے۔

ایک بینر پر لکھا تھا: ’میرے بچے میرے بغیر پرورش پائیں، میں آپ کی توجہ اس طرف دلانا چاہتا ہوں۔‘

اسی طرح ایک پلے کارڈ پر درج تھا: ’آپ تاخیر کی وجہ کرونا بتاتے ہو نہیں 2017 میں تو کورونا تھا ہی نہیں۔‘

احتجاج میں خواتین، بچوں سمیت نوجوان اور بوڑھے افراد نے بھی اپنے اپنے حق کے لئے آواز بلند کی۔

اسی طرح مظاہرین نے جرمن زبان میں نعرے بازی بھی کی جس کا مطلب تھا ’تاخیر اور انتظار۔‘

’یہ حل نہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ