’امریکہ نے الظواہری کو مارنے کے لیے چاقوؤں والا میزائل استعمال کیا‘

اس میزائل میں کوئی بم نہیں بلکہ بلیڈ لگے ہوتے ہیں جو ہدف کے جسم کو چیر پھاڑ دیتے ہیں اور آس پاس کے لوگ محفوظ رہتے ہیں۔

امریکی پریڈیٹر ڈرون 2013 میں امریکہ میں ایک مشق کے دوران (AFP PHOTO / US AIR FORCE/432ND WING/432ND AIR EXPEDITIONARY WING")

امریکہ نے اتوار کی صبح چھ بج کر 18 منٹ پر کابل میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کو مارنے کے لیے جو ہتھیار استعمال کیا، وہ کوئی عام میزائل نہیں تھا بلکہ اس کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا تھا۔

روایتی طور پر امریکہ مبینہ دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کے لیے ڈرون سے پھینکے گئے بم نما میزائل استعمال کرتا ہے جس کے دھماکے سے پھٹنے سے اس جگہ کو نقصان پہنچتا ہے جہاں ہدف موجود ہوتا ہے۔

اکثر ایسا ہوتا تھا کہ مطلوبہ ہدف کے علاوہ آس پاس موجود دوسرے لوگ بھی ہلاک ہو جاتے تھے جنہیں امریکہ نے ’کولیٹرل ڈیمیج‘ کا نام دے رکھا تھا۔ مثال کے طور پر امریکہ نے گذشتہ برس 29 اگست کو کابل میں ایک ڈرون حملہ کیا تھا جس میں ایک ہی خاندان کے سات افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

امریکہ نے بعد میں اس حملے پر معذرت بھی کی تھی۔

شاید اسی لیے اب امریکہ نے ایک الگ قسم کا ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ اے ایف پی کے مطابق امریکہ نے ممکنہ طور پر ہیل فائر آر نائن ایکس  Hellfire R9X نامی ایک مخصوص میزائل استعمال کیا جس میں کوئی پھٹنے والا باردوی مواد نہیں بلکہ بلیڈ یا چاقو لگے ہوئے تھے۔

یہ بلیڈ اپنے ہدف کے جسم کے نشانہ بنانے ہیں لیکن اس سے آس پاس کے لوگ متاثر نہیں ہوتے نہ ہی تعمیرات کو کوئی بڑا نقصان پہنچتا ہے۔

امریکہ نے سرکاری طور پر اس میزائل کے استعمال کی تصدیق نہیں کی، تاہم اے ایف پی کے مطابق امریکہ اب تک ’اڑن گنسو‘ یا ’ننجا بم‘ کے لقب سے مشہور یہ میزائل نصف درجن مرتبہ استعمال کر چکا ہے۔

ایک امریکہ عہدے دار نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ظواہری کے اہلِ خانہ حملے کے وقت گھر میں موجود تھے مگر انہیں نشانہ نہیں بنایا گیا اور وہ محفوظ رہے۔‘

ٹوئٹر پر شیئر کی گئی تصویروں سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ الظواہری جس گھر میں موجود تھے، اسے بہت کم نقصان پہنچا۔

 

ممتاز امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ آر نائن ایکس سابق امریکی صدر براک اوباما کے دباؤ پر بنایا گیا تھا اور اس کا مقصد یہی تھا کہ ہدف کے علاوہ دوسرے لوگ نقصان سے محفوظ رہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نیویارک ٹائمز کے مطابق عام طور پر ڈرون میں استعمال ہونے والے ہیل فائر میزائل میں نو کلوگرام کے لگ بھگ باردوی مواد استعمال ہوتا ہے۔ جب یہ پھٹتا ہے تو اس مقام کو خاصا نقصان پہنچتا ہے اور اس سے متعدد افراد ہلاک ہو سکتے ہیں۔

اس کے برعکس جب امریکی سی آئی اے نے 2019 میں اسامہ بن لادن کے داماد ابو الخیر المصری کے خلاف شام کے صوبہ ادلب میں آر نائن ایکس میزائل چلایا تو اس وقت المصری ایک گاڑی میں سفر کر رہے تھے۔ میزائل گاڑی کی چھت سے گزر کر المصری کو آ لگا اور انہیں ہلاک کر ڈالا۔ مگر بعد میں جب اس گاڑی کی تصویریں سامنے آئیں تو معلوم ہوا کہ چھت کے سوراخ کے علاوہ اسے کوئی بڑا نقصان نہیں پہنچا۔

اسی طرح 24 جون 2020 کو ایک اور القاعدہ رہنما خالد العاروری کو ہلاک کرنے کے لیے بھی یہی میزائل استعمال کیا گیا۔ اس میزائل میں چھ لمبے بلیڈ لگے ہوئے تھے جو اپنے ہدف سے ٹکرانے کے بعد فعال ہو گئے اور انہوں نے اپنے ہدف کو چیر پھاڑ دیا۔

ڈورن کہاں سے اڑا تھا؟ 

ابھی تک امریکہ نے یہ معلومات ظاہر نہیں کیں کہ یہ میزائل فائر کرنے والا ڈرون کہاں سے اڑا تھا۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے گذشتہ برس افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد واضح کیا تھا کہ امریکہ جب مناسب سمجھے گا، افغانستان میں اہداف کے خلاف کارروائی کرے گا، تاہم اسی وقت کے بعد سے یہ سوال باقی ہے کہ ڈرون کہاں سے اڑیں گے۔ بظاہر اس وقت کے پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان نے absolutely not کہہ کر پاکستان سے ایسی کسی کارروائی کا امکان ختم کر دیا تھا۔

انڈپینڈنٹ اردو کی ایک تفصیلی رپورٹ کے مطابق امریکہ کے پاس وسطی ایشیا کے کسی ملک میں کوئی ایسا اڈا نہیں ہے جہاں سے افغانستان میں کارروائی کی جا سکے۔ تاجکستان اور قزاقستان ایسے دو ملک ہیں جنہیں امریکہ ممکنہ طور پر استعمال کر سکتا ہے، لیکن ان دونوں ملکوں پر روس کا دباؤ ہے، اس لیے وہاں سے ڈرون اڑانے قرینِ قیاس نہیں ہے، خاص طور پر موجودہ حالات میں جب یوکرین کی جنگ کے بعد امریکہ اور روس کے تعلقات سخت کشیدہ ہیں۔

اس کے بعد ایک ہی صورت بچتی ہے کہ امریکہ نے بحرِ ہند میں موجود اپنے بحری جہاز سے یہ ڈرون بھیجا ہو گا، لیکن اس صورت میں اس ڈرون نے پاکستانی فضا کو استعمال کیا ہو گا۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی