کیا مجرم، ملزم کو میڈیا سے دور رکھنا قانوناً درست ہے؟

حکومت کی جانب سے پیمرا کو ہدایت کی گئی ہے کہ سزا یافتہ اور زیرِ حراست ملزمان کے بیانیے کے فروغ کے لیے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ 

حکومت کی جانب سے پیمرا کو ہدایت کی گئی ہے کہ سزا یافتہ افراد کے بیانیے کے فروغ کے لیے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی جائے (اے ایف پی)

تحریک انصاف کی حکومت نے الیکٹرانک میڈیا کی نگرانی کے ادارے پیمرا کو ہدایت کی ہے کہ سزا یافتہ اور زیرِ حراست ملزمان کے بیانیے کے فروغ کے لیے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ 

یہ تازہ ہدایات گذشتہ روز وفاقی کابینہ کے ایک اجلاس میں جاری کی گئیں، جس کی صدارت وزیر اعظم عمران خان نے کی۔

بعد میں کابینہ اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کے بارے میں ذرائع ابلاغ کو بریفنگ دیتے ہوئے وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا کہ کابینہ نے نوٹس لیا ہے کہ کسی بھی جمہوریت میں ذاتی مفادات کو فروغ دینے، سزا یافتہ یا مقدمات میں ملوث افراد کو قومی اداروں پر دباؤ ڈالنے کے لیے ذرائع ابلاغ کے استعمال کی قطعی اجازت نہیں ہے۔

پیمرا آرڈیننس 2002 کی شق نمبر 5 کے مطابق وفاقی حکومت کو پیمرا کو ہدایات جاری کرنے کا اختیار ہے۔ شق کے مطابق: ’وفاقی حکومت جب اور جس طرح ضروری سمجھے پالیسی کے معاملات پر اتھارٹی کو ہدایات جاری کر سکے گی اور اتھارٹی مذکورہ ہدایات کی پابند ہو گی، اور اگر یہ سوال پیدا ہو کہ آیا کوئی معاملہ پالیسی کا معاملہ ہے یا نہیں تو اس معاملے میں وفاقی حکومت کا فیصلہ قطعی ہوگا۔‘

حکومت کی جانب سے پیمرا کو یہ ہدایات ایک ایسے وقت میں جاری کی گئی ہیں، جب دو روز قبل حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز کی اخباری کانفرنس اور جلسے کی کوریج کی وجہ سے ملک میں تین ٹی وی نیوز چینل بند کر دیے گئے تھے۔

اس سے قبل نیب کے زیرِ تفتیش پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق صدر آصف علی زرداری کا ایک نجی ٹی وی کو دیا گیا انٹرویو بھی حکام نے چلنے کے چند منٹ بعد رکوا دیا تھا۔ اس کے علاوہ سینیئر صحافی عاصمہ شیرازی کا سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کے ہمراہ لندن سے لاہور آ مد پر دوران سفر ریکارڈ کیا گیا انٹرویو بھی نامعلوم احکامات کے بعد رکوا دیا گیا تھا۔

’رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ سمیت کئی بین الاقوامی تنظیموں نے ان اقدامات کی مذمت کی تھی اور انہیں ’آمرانہ رجحانات‘ قرار دیا تھا۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے صدر افضل بٹ اور سیکرٹری جنرل ایوب جان سرہندی نے پیمرا کی طرف سے تین چینلوں 24 نیوز، ابتک نیوز اور کیپٹل ٹی وی کو بند کرنے کے اقدام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے فوری طور پر ان چینلز کو کھولنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ساتھ ہی جن لوگوں نے چینل کو بند کرنے کی گھناونی سازش کی ہے، انہیں قرارِ واقعی سزا دینے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔

دونوں رہنماؤں نے پریس کی آزادی پر لگی پابندیوں کو ’فسطائی ہتھکنڈوں‘ سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ پی ایف یو جے ہمیشہ اخبارات اور چینل کی بندش اور سنسر شپ کے خلاف جدوجہد کرتی رہی ہے اور آئندہ بھی یہ جدوجہد جاری رہے گی۔ ان کا کہنا تھا: ’سچائی کو روکنے سے پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوئی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ جمہوریت اور جمہوری اداروں کو مضبوط کرے۔ ماضی میں بھی حکمرانوں نے پریس کی آزادی پر قدغن لگائی لیکن انہیں پی ایف یو جے کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم آج بھی ان اقدامات کے خلاف شدید احتجاج کریں گے اور کسی صورت میں پریس کی آزادی پر سمجھوتا نہیں کریں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم یہ بات بھی سب کے سامنے ہے کہ پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں کے بیانات اور انٹرویو ان پر عدالتوں میں مقدمات کے دوران چلتے رہے ہیں۔ احتساب عدالت میں موجود صحافی کہتے ہیں کہ ’جب نندی پور کیس میں بابر اعوان کے خلاف مقدمہ چل رہا تھا تو بابر اعوان عدالت کی کینٹین میں میڈیا کو ناشتہ کرواتے اور اپنا بیان بھی جاری کرتے جو ہر ٹی وی چینل اور اخبار کی زینت بنتا تھا۔‘

اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے وکیل کامران مرتضیٰ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’کسی کو میڈیا پر آنے سے روکنا اس کے اظہار رائے پر پابندی ہے، جو 1973کے آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت ایک بنیادی حق ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’بنیادی حقوق سزا یافتہ مجرمان سے بھی چھینے نہیں جا سکتے۔ ہر پاکستانی شہری کا حق ہے کہ وہ جب چاہے اپنی رائے کا اظہار کر سکتا ہے۔ اس میں ملزم، مجرم یا کسی بھی دوسری حیثیت کی تفریق نہیں ہے۔‘

کامران مرتضی کے مطابق: ’آزادئ رائے کا حق اہم بنیادی حق ہے اور اسے کسی صورت سلب نہیں کیا جا سکتا۔ یہ حق ایمرجنسی میں بھی معطل نہیں کیا جاسکتا اور ایسا کرنے کے لیے خصوصی حکم نامے اور اجازت ناموں کی ضرورت ہوتی ہے۔کسی کی رائے کے اظہار پر پابندی لگانا سیدھا سیدھا آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہو گی۔‘

تاہم انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 19 کے تحت اظہارِ رائے کی آزادی کو مذہب اسلام، پاکستان کے دفاعی اداروں، دوست ممالک، امن و عامہ، اخلاقیات اور عدلیہ کے خلاف یا کسی کو جرم پر اُکسانے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔

قانون کے ماہر آفتاب عالم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کسی ملزم کے کسی بھی سیاسی یا سول حق کو سلب نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ایک زیر حراست شخص صرف نقل و حرکت کا حق کھو دیتا ہے، تاہم آزادئ اظہار رائے کا حق ان سے کوئی نہیں چھین سکتا۔‘

دوسری جانب کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سزا یافتہ مجرمان کے ٹی وی انٹرویوز پر پابندی لگانا آزادی اظہارِ رائے پر حملہ نہیں ہے۔ صحافی عامر ضیا نے اس حوالے سے ٹوئٹر پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

 

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان