پاکستان: ڈالر نیچے آیا تو گاڑیوں کی قیمتیں کم ہوں گی یا نہیں؟

شروع میں ٹویوٹا اور کِیا والوں کی خبریں آئیں، اس کے بعد جیسے بازار میں آگ لگ گئی۔ سوزوکی، ہونڈا، چیری ٹیگو، چنگان، ایم جی ، کوئی کمپنی ایسی نہیں تھی جس نے گاڑیوں کی قیمت میں لاکھوں روپے اضافہ نہ کیا ہو۔

وزیر اعظم پاکستان کے حفاظتی قافلے میں شریک گاڑیاں (فائل تصویر: اے ایف پی، 11042022)

2022  اب تک پاکستان میں گاڑیوں کے لیے بہت بھاری سال رہا ہے۔

سب سے پہلے شرح سود بڑھی اور اس کے بعد مئی 2020 کے دوران گاڑیوں کی لیزنگ پالیسی میں سٹیٹ بنک نے اچھی خاصی تبدیلی کی اور اب ڈالر کی حالیہ اونچی اڑان کے بعد پاکستان میں تمام کار ساز اداروں نے گاڑیوں کے ریٹ لاکھوں کے حساب سے بڑھا دیے۔

گاڑیوں کی بنک لیز پالیسی میں تبدیلی کیا ہوئی؟

ایک ہزار سی سی سے زیادہ کی گاڑیاں قرضے پر لینے کے لیے بینک آپ کو صرف تین سال پر محیط قرضہ دے سکتا ہے۔ اس کیٹگری میں ٹویوٹا یارس، کرولا، ہونڈا سٹی، سوک، سوزوکی سوئفٹ سمیت نئی آنے والی چینی، ملائیشین اور کورین گاڑیوں کی مکمل رینج شامل ہے جب کہ پہلے یہ قرضہ پانچ سال کے لیے ہوتا تھا۔

ایک ہزار سی سی سے کم طاقت والی گاڑیاں پانچ سال کے قرضے پر مل سکتی ہیں لیکن ان میں بھی ایڈوانس 30 فیصد ادا کرنا ہو گا۔ پہلے یہ قرضہ سات سال ہوا کرتا تھا اور دس پندرہ فیصد کی ڈاؤن پیمنٹ سے بھی کام چل جاتا تھا۔

گاڑیوں کی قیمت کس حد تک بڑھی؟

جولائی کی اٹھارہ تاریخ تھی جس دن اس کہانی کی پہلی اینٹ رکھی گئی۔ ڈالر 209 سے 216 روپے تک پہنچا۔ پھر آنے والے دنوں میں ڈالر 240 پہ گیا، اس سے اونچا اڑا اور گاڑیاں بنانے والوں کا صبر اس وقت جواب دے گیا جب یہ قیمت 235 روپے کے آس پاس تھی۔

شروع میں ٹویوٹا اور کِیا والوں کی خبریں آئیں اور اس کے بعد تو جیسے بازار میں آگ لگ گئی۔ سوزوکی، ہونڈا، چیری ٹیگو، چنگان، ایم جی اور جس کا مرضی نام سوچ لیں۔ کوئی کمپنی ایسی نہیں تھی جس نے گاڑیوں کی قیمت میں اضافہ نہ کیا ہو اور وہ اضافہ لاکھوں روپے کا نہ ہو۔

ٹویوٹا یارس میں  نو لاکھ، کرولا میں تیرہ لاکھ، ہائی لکس ڈالے میں تئیس لاکھ اور فورچونر میں ایک ہی دم بتیس لاکھ روپے کا زیادہ سے زیادہ اضافہ ہوا۔

سوزوکی آلٹو جیسی عوامی گاڑی چوبیس لاکھ روپے پر پہنچ گئی اور ساڑھے چھ لاکھ روپے اضافے کے بعد سوئفٹ چالیس لاکھ کو چھو رہی ہے۔

ہونڈا سٹی میں زیادہ سے زیادہ اضافہ نو لاکھ،  سوک میں ساڑھے چودہ لاکھ اور بی آر وی میں بھی ساڑھے دس لاکھ روپے قمیت کا اضافہ کیا گیا۔

پکانٹو جیسی چھوٹی گاڑی بتیس لاکھ کی ہو چکی ہے، کیا سپورٹیج کا سب سے ہائی اینڈ ویرینٹ بہتر لاکھ پچاس ہزار روپے کی لسٹ پرائس کے ساتھ  موجود ہے۔

ڈالر کی قیمت اگر اسی طرح نیچے آتی رہی تو گاڑی بنانے والی کمپنیاں قیمتیں کم کریں گی؟

ڈالر آج 224 روپے کا تھا۔ دو اگست سے چار اگست کے دوران ڈالر 238 (بلکہ 240 ہی سمجھ لیں) سے غوطہ کھا کے 224 پہ آیا ہے۔ بدھ تین اگست 2022 کو پاکستان کی تاریخ میں ڈالر ریکارڈ کمی کے ساتھ نیچے آیا جو کہ 9.58 روپے تھی۔ بظاہر اس کی وجوہات میں امپورٹ میں کمی، آئی ایم ایف کا حوصلہ افزا بیان، جے پی مورگن کی طرف سے پاکستان کی ڈیفالٹ نہ ہونے کی وضاحت اور سٹیٹ بنک سمیت پاکستانی وزارت خزانہ کی مسلسل یقین دہانیاں اہم ہیں۔

اگر مقامی میڈیا پر پچھلے تین دن کے دوران ہونے والے تمام معاشی تجزیے دیکھے جائیں تو ماہرین 200 روپے سے 210 تک کے درمیان مستقبل کے نسبتاً مستحکم ڈالر ریٹ کا عندیہ دیتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ڈالر اگر چھ ماہ تک 200 روپے سے 210 کے درمیان مستحکم رہ جائے تو کیا گاڑیوں کی قیمتیں پاکستان میں واپس نیچے آئیں گی؟

پاک وہیلز کے سی ای او سنیل سرفراز منج سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے یہ سوال کیا تو ان کا جواب تھا کہ چھ مہینے تو کیا اگر ایک دو ماہ تک بھی قیمت اس سطح پر آ کے مستحکم رہتی ہے تو پاکستان میں گاڑیوں کی قیمتیں یقیناً کم ہوں گی۔

مقامی کارساز اداروں کے دو ترجمان اس بارے میں نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو سے یہ کہتے پائے گئے کہ ڈالر نیچے آیا اور روپیہ مستحکم رہا تو قیمتیں یقیناً کم ہوں گی بلکہ پاکستان میں اس کی دو مثالیں پہلے بھی موجود ہیں۔ 2021 میں بھی حکومت کی جانب سے ٹیکس کم ہوا تو کارساز اداروں نے اس فائدے کو خریداروں تک منتقل کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نام ظاہر نہ کرنے کی وجہ مشترک یہ تھی کہ گاڑیوں کی قیمت کم کرنے کا فیصلہ بہرحال اداروں کے سی ای او کرتے ہیں اور ترجمان اس بارے میں واضح بات نہیں کر سکتے۔

ترجمان کے مطابق ’گاڑیوں کی قیمتیں کم  ہونے میں سب سے اہم ایک اور فیکٹر مقابلے بازی کا ہے۔ کوئی ایک کمپنی بھی ریٹ تھوڑا سا کم  کرتی ہے تو لوگوں کی آنکھیں باقی سب کی طرف لگی ہوں گی۔ جو ایک چیز ہم نظر انداز کر رہے ہیں وہ ایل سی کھولنے کا کوٹہ ہے، ماہانہ ہمیں تیس سے چالیس فیصد تک بمشکل یہ کوٹہ دیا جاتا ہے۔ اب جس نے ایل سی 235 پہ کھولی ہو گی وہ کیسے ڈالر ریٹ کم ہوتے ہی فوراً گاڑی کے ریٹ بھی کم کر دے گا؟ اس میں وقت لگے گا لیکن روپیہ مستحکم ہوا تو دو تین ماہ میں ہی قیمتیں کم ہو جائیں گی۔‘

’ایل سی‘ اور ’سی کے ڈی‘ کیا ہے؟

سی کے ڈی(کمپلیٹ ناکڈ ڈاؤن)

CKD کا مطلب ہے Completely Knocked Down۔ یعنی گاڑیوں کے وہ پرزے جو مقامی طور پر گاڑی اسمبل کرنے کے لیے باہر سے منگوائے جاتے ہیں۔ گاڑی پرزوں کی شکل میں منگوانی اس لیے سستی پڑتی ہے چونکہ سی کے ڈی شکل میں سپئیر پارٹس منگوا کر لوکل اسمبلنگ میں امپورٹ ڈیوٹی کم دینا پڑتی ہے اور ماضی کی پاکستانی حکومتیں بنی بنائی گاڑیاں باہر ملکوں سے منگوانے کی بجائے مقامی طور پر اسمبل کرنے کی حوصلہ افزائی بھی کرتی تھیں۔ بنی بنائی گاڑی باہر سے منگائی جائے تو اسے Completely Built Unit کہا جاتا ہے اور اس پر امپورٹ ڈیوٹی نسبتاً زیادہ ہوتی ہے۔

ایل سی (لیٹر آف کریڈٹ)

کار ساز ادارے گاڑیاں بنانے کے لیے بیرون ملک سے جو پارٹس (CKD اور CBU) منگواتے ہیں اس کے لیے انہیں کمرشل بینکوں کے ذریعے سٹیٹ بینک آف پاکستان میں ایک گزارش دینا ہوتی ہے۔ اسے کاروباری زبان میں ایل سی کھولنا کہتے ہیں۔ ایل سی کے عمل میں بیرون ملک پارٹس کی کمپنی پاکستانی آٹو کمپنی کو یہ گارنٹی دیتی ہے کہ دونوں کے درمیان بینک کے ذریعے پیسوں کا ٹرانسفر ممکن ہوگا۔‘ چونکہ بیرون ملک کمپنیوں کو ادائیگی ڈالر میں ہی ہوتی ہے اس لیے ملک میں ڈالر کے ریزرو باقی رکھنے کے لیے حکومت کم سے کم ایل سی کھولنے کو ترجیح دے رہی ہے۔

ایل سی پر کارساز اداروں کا موقف

ویب سائٹ بزنس ریکارڈر سے بات کرتے ہوئے پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹو موٹیو پارٹس اینڈ اسیسریز مینوفیکچررز (PAAPAM) کے سابق چیئرمین سید نبیل ہاشمی کا کہنا تھا کہ ’سی کے ڈی پرزے ہمارا خام مال ہیں۔ ہر ایک ڈالر جو سٹیٹ بنک اس طریقے سے بچا رہا ہے اس کے بدلے کار سکیٹر میں ملازمتیں بھی کم ہوتی جا رہی ہیں۔ حکومت کو لگژری سامان کی درآمد پر پابندی جاری رکھنی چاہیے لیکن سی کے ڈی پر روک لگانا آٹو انڈسٹری کو بند کرنے والی بات ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت