پاکستان: ٹویوٹا، سٹی یا آلٹو قسطوں پر اب کتنے میں ملیں گی؟

’میں نے بھی سوچا تھا کہ اپنی کرولا بیچ کے ایم جی یا کوئی اور ایس یو وی لوں گا لیکن اب جتنے پیسے اوپر دینے پڑ رہے ہیں اس کے لیے تو یہی ممکن ہے کہ دو بچوں کو سکول سے اٹھا لوں اور ان کو یہی گاڑی دے کے اوبر کریم چلوانا شروع کر دوں۔‘

موجودہ شرح سود کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر بینک لیزنگ کو دیکھا جائے تو وہ گاڑیاں جن کا خواب کچھ عرصے تک مڈل کلاس دیکھ سکتی تھی، اب ان کی پہنچ سے بہت دور ہو چکی ہیں(تصویر: کولاج)

سٹیٹ بنک آف پاکستان کی نئی گاڑی خریدنے کے لیے بینکوں سے قرضے کی نئی پالیسی کے بعد عام مڈل کلاس پاکستانی کیا گاڑی خرید بھی پائیں گے یا نہیں، آئیے دیکھتے ہیں۔

اب ایک ہزار سی سی سے زیادہ کی گاڑیاں قرضے پر لینے کے لیے بینک آپ کو صرف تین سال پر محیط قرضہ دے سکتا ہے۔ اس کیٹگری میں ٹویوٹا یارس، کرولا، ہونڈا سٹی، سوک، سوزوکی سوئفٹ سمیت نئی آنے والی چینی، ملائیشین اور کورین گاڑیوں کی مکمل رینج شامل ہے۔

ایک ہزار سی سی سے کم طاقت والی گاڑیاں پانچ سال کے قرضے پر مل سکیں گی لیکن ان میں بھی ایڈوانس 30 فیصد ادا کرنا ہو گا۔ مرکزی بینک پہلے ہی شرح سود 13.75 تک بڑھا چکا ہے جو عام حالات سے کہیں زیادہ ہے۔

موجودہ شرح سود کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر بینک لیزنگ کو دیکھا جائے تو وہ گاڑیاں جن کا خواب کچھ عرصے تک مڈل کلاس دیکھ سکتی تھی، اب ان کی پہنچ سے بہت دور ہو چکی ہیں۔

مختلف پاکستانی بنکوں کے آن لائن کار لیزنگ کیلکولیٹر پر 30 فیصد ایڈوانس (ڈاؤن پیمنٹ) کے ساتھ حساب کتاب کریں تو مجموعی کھاتہ یہ بنتا ہے۔

ٹویوٹا کرولا 1.6 ( موجودہ آلٹس) پانچ سال کی بجائے تین سال کی قسطیں کرنے سے خریدنے والے کو سیدھا سیدھا تیس ہزار فی مہینہ اضافی قسط دینی پڑے گی۔ پانچ سال کی مدت میں اس گاڑی کی فی ماہ قسط 75000 روپے بنتی تھی جو تین سال قرضے کی مدت فکس ہونے کے بعد اب تقریباً ایک لاکھ سات ہزار روپے بنے گی۔

ہونڈا سٹی (1.5) کی وہی قسط جو پہلے پانچ سال کی مدت پر 66000 روپے بنتی تھی اب فی مہینہ 94000 پر پہنچ چکی ہے اور ہونڈا سوک پر قسط لاکھ روپے مہینہ سے سیدھی ڈیڑھ لاکھ کے پاس جا کے دم توڑتی ہے۔

بچوں کی فیسیں، بجلی کے بل، گھروں کے کرائے ہر چیز میں مسلسل اضافے کے ساتھ کم از کم 43 فیصد کا یہ ماہانہ اضافہ عام پاکستانی شہری کو اب ان گاڑیوں کے خواب بھی نہیں دیکھنے دے سکتا۔

اب بغیر ڈگی والی گاڑیوں کی بات کر لیں۔ سب سے پہلے سوزوکی سوئفٹ آتی ہے جس کا انجن سیڈان کیٹیگری والا ہے لیکن ڈگی سے محروم ہے۔ سوزوکی سوئفٹ ماہانہ 53000 سے سیدھی 76000 پہ جا کے رکتی ہے۔ ماہانہ اتنے پیسوں میں پہلے ہنستے کھیلتے آیوی لیگ کی ساری گاڑیاں مل جاتی تھیں اور اب صورت حال آپ کے سامنے ہے۔

سوزوکی آلٹو، کلٹس اور ویگن آر وہ تین گاڑیاں تھیں جو پہلے لوئر مڈل کلاس بھی تھوڑی ہمت کر کے ماہانہ قسطوں میں لے لیا کرتے تھے۔ اب ان کی ماہانہ قسطوں کی زیادہ سے زیادہ مدت پانچ سال ہے۔ جس وقت یہ لیزنگ سات سال کے لیے ہوتی تھی تب آلٹو (VXR) کی قسط پچیس ہزار مہینہ بنتی تھی، وہ قسط بھی اب 31000 روپے کم از کم ہے۔

کلٹس 34000 سے 42000 اور ویگن آر 31000 سے 37000 روپے ماہانہ قسط پر پہنچ چکی ہے۔ سات سال سے لیز کی مدت کم کر کے پانچ سال ہونے کے بعد ان گاڑیوں کے صارفین کو مجموعی طور پر اکیس فیصد اضافے کا سامنا ہے۔

سود کی سخت شرحوں اور ریگولیٹری پابندیوں مثلا ستمبر 2021 میں لیزنگ کی مدت پانچ سال ہو جانے کے باوجود، گذشتہ برس کار فنانسنگ میں دسمبر 2021 تک اچھا خاصہ اضافہ ہوا۔ سٹیٹ بینک (SBP) کے مطابق دسمبر 2021 میں 2020 کی نسبت کار فنانسنگ میں 38 فیصد اضافہ ہوا۔ اپریل 2022 تک آٹو سیکٹر میں ترقی کا تناسب پچیس فیصد تھا جو بالاخر موجودہ حکومتی اقدامات کے بعد کافی حد تک سکڑ جانے کا امکان ہے اور جس کی واحد وجہ پاکستانی معیشت کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کرنا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس صورت حال پر کپڑے کا بزنس کرنے والے کامران انصاری کا کہنا ہے کہ ’کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہو نہ ہو غریب آدمی کو ٹھیک ٹھاک کرنٹ لگا ہے۔ یہ جو مارکیٹ میں ایس یو وی کا فیشن آیا تھا، میں نے بھی سوچا تھا کہ اپنی کرولا بیچ کے ایم جی یا کوئی اور ایس یو وی لوں گا لیکن اب جتنے پیسے اوپر دینے پڑ رہے ہیں اس کے لیے تو یہی ممکن ہے کہ دو بچوں کو سکول سے اٹھا لوں اور ان کو یہی گاڑی دے کے اوبر کریم چلوانا شروع کر دوں۔‘

مالی سال 2023 میں ان ساری تبدیلیوں کے بعد ٹویوٹا کو تیس فیصد تک نقصان کا سامنا ہو سکتا ہے جب کہ پاک سوزوکی کو کم از کم دس فیصد گھاٹے کی امید ہے۔

سوزوکی کا سب سے سستا ویرینٹ وی ایکس ہے جسے قسطوں پر خریدنے کے بارے میں لاہور کے رہائشی اور سرکاری ملازم طارق احمد سوچ رہے تھے۔ طارق کہتے ہیں ’جتنی پیٹرول کی قیمت اب بڑھ چکی ہے اور جس طرح سے گاڑیوں کے اوپر قسطیں بڑھی ہیں، شکر کرتا ہوں کہ گاڑی بُک نہیں  تھی کروائی، اگلی باری تھوڑے پیسے اکٹھے کر کے ایف ایکس یا کوئی پرانی مہران لے لوں گا، اب ان حالات میں گاڑی خریدنا ہی بے کار ہے کیونکہ اس میں پٹرول بھی بھروانا پڑتا ہے!‘

مسلم موٹرز کے نام سے شوروم کے مالک امتیاز علی کا کہنا ہے کہ ’نئی گاڑیاں لوگ کم خریدیں گے تو سارا پریشر سیکنڈ ہینڈ گاڑیوں کی مارکیٹ پر آئے گا۔ پہلے پندرہ بیس لاکھ میں اچھی گاڑی مل جاتی تھی لیکن اب کم از کم پچیس تیس لاکھ روپے جیب میں ڈال کے جو بندہ آتا ہے وہی کوئی صاف ستھری کم چلی ہوئی گاڑی لے جا سکتا ہے۔ جاپانی گاڑیاں پابندی کے بعد شدید ترین مہنگی ہو چکی ہیں۔ ایک بندہ ریٹ لگاتا ہے دوسرا اس سے پچاس ہزار اوپر دے کے خرید لیتا ہے کیونکہ اس پتہ ہے مہینے بعد یہی پچاس ہزار اسے دو لاکھ دے جائیں گے۔ مارکیٹ بہت ان ایکسپیکٹڈ ہو چکی ہے۔‘

آخر میں ایک ذاتی تجربہ پڑھ لیجیے۔ خاور جمال میرے چھوٹے بھائی ہیں۔ ان کا دو سال سے ارادہ چل رہا تھا کہ 2003 ماڈل ہونڈا سٹی بیچ کے چھوٹی کوئی نئی گاڑی خرید لیں۔ سال پہلے ایک جگہ سے آلٹو وی ایکس آر بُک کرائی اور آٹھ ماہ بعد بھی گاڑی ان کے ہاتھ نہیں آ سکی کیوں کہ اس دوران ریٹ دو مرتبہ بڑھے اور جتنا ریٹ بڑھ چکا تھا اس میں تب کچھ پیسے ڈال کے اچھی استعمال شدہ ٹویوٹا وٹز مل رہی تھی۔ اس وٹز کی ہی قیمت اب دو لاکھ بڑھ چکی ہے اور گاڑی بھی بہرحال جاپانی اور نسبتاً بہتر انجن والی ہے۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت