گلوں میں رنگ بھرنے والی ایرانی عورتیں

یونانی مورخین نے اپنے تعصب کی وجہ سے ایران کی تاریخ مسخ کر کے پیش کی ہے، تاہم بعد میں ان کے بہت سے نظریات غلط ثابت ہوئے۔

سکندر یونانی نے رخسانہ نامی ایرانی شہزادی سے شادی کی تھی (اطالوی مصور پیئترو روتاری: 1756ء)

ایرانی تاریخ دو شاہی خاندانوں میں بٹی ہوئی ہے۔ اخیمینائی دوسرا ساسانی خاندان تھا جس کی حکومت 651 عیسوی تک رہی۔ ایرانی تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ ان دونوں شاہی خاندانوں نے اپنی کوئی تاریخ نہیں لکھوائی۔ اس لیے ان کے بارے میں ہماری معلومات یونانی مورّخ ہیں۔

چوتھی صدی قبل مسیح میں ایران اور یونان کے درمیان جنگیں ہوئی تھیں اس لیے یونانیوں نے ان کی تاریخ کو مسخ کر کے پیش کرتے ہوئے  ایرانیوں کو عیاش، بزدل اور نااہل بتایا ہے۔ ایرانی عورتوں کے بارے میں بھی منفی پروپیگنڈا کیا ہے کہ بادشاہ ان کے زیر اثر رہتا تھا اور یہ سازشی اور شہوت پرست تھیں۔

لیکن بعد کی تحقیقات نے اس یونانی نقطۂ نظر کو غلط ثابت کیا۔ ایران کے دارالحکومت تختِ جمشید سے جو تختیاں برآمد ہوئیں اور جو تاریخی دستاویزات ملی ہیں اُن کی مدد سے مورّخوں نے ایرانی عورتوں کا مثبت کردار پیش کیا ہے۔

ایرانی معاشرے میں ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کا رواج تھا۔ لیکن یہ بادشاہ اور امرا تک محدود تھا۔ شاہی خاندان کی لڑکیوں کی شادی خاندان سے باہر نہیں ہوتی تھیں۔ وہ اپنے سَگے یاسوتیلے بھائی سے بھی شادی کر لیتی تھیں۔ مقصد یہ تھا کہ اقتدار خاندان سے باہر نہ جائے۔

شادی شدہ بیگمات کے ساتھ ساتھ کنیزیں بھی ہوتی تھیں لیکن یہ ایرانی نہیں ہوتی تھیں بلکہ یا تو جنگ میں پکڑی ہوئی ہوتی تھیں یا صوبائی گورنر انہیں بطور تحفہ دیا کرتے تھے۔ کنیز کی اولاد کو نہ تو وراثت میں حصہ ملتا تھا اور نہ اُنہیں بادشاہ بننے کا حق تھا لیکن کچھ حالات میں اس روایت کی خلاف ورزی ہوئی مثلاً دارا دوم جس کی ماں ایک کنیز تھی وہ بادشاہ بن گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایران کے شاہی خاندان میں مردوں اور عورتوں کے درمیان محبت اور یگانگت تھی۔ خاص بات یہ تھی کہ پورا خاندان ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتا تھا جو یونانیوں کے لیے عجیب بات تھی۔ بادشاہ اور ملکہ ایک دوسرے سے بڑی محبت کرتے تھے۔ جب سائرس(وفات: 530 ق م) کی بیوی کی نوجوانی میں وفات ہوئی تو اُسے ذاتی طور پر سخت صدمہ ہوا اور پوری سلطنت میں سوگ کا اعلان کیا گیا۔

شاہی خاندان کی عورتیں بڑی حد تک آزاد تھیں۔ شادی کے ادارے کو سیاست کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ بادشاہ غیر ملکی حکمرانوں کی شہزادیوں اور امرا کی لڑکیوں سے شادی کرکے اپنے سیاسی تعلقات کو مضبوط کرتے تھے۔ خاندان میں بادشاہ کی والدہ اور اُس کی پہلی بیوی کی عزت کی جاتی تھی۔ جب دارا سوم کی سکندر سے جنگ ہوئی تو اس کی ماں اور بیوی میدان جنگ میں موجود تھیں۔

عورتیں محل کی تقریبات میں حصہ لیتی تھیں شاہی ضیافت میں مردوں کے ساتھ شریک ہوتی تھیں۔ دربار میں ملکہ بادشاہ کے ساتھ تخت پر بیٹھتی تھی اور عورتیں خود بھی اپنا دربار منعقد کرتی تھیں۔ عورتیں گھڑ سواری کرتی تھیں شکار پر جایاکرتی تھیں اور بعض عورتیں فنون جنگ میں ماہر ہوتی تھیں اور ہتھیاروں کے استعمال سے خوب واقف تھیں۔ بلکہ بعض تو جنگوں میں بھی حصہ لیتی تھیں۔

یہ بادشاہ کی اجازت سے طویل سفر بھی کرتی تھیں۔ جب دارا سوم کو 334 ق م میں سکندر نے شکست دی اور ایران پر قبضہ کیا تو اُس نے خود ایک ایرانی لڑکی رخسانہ سے شادی کی اور ساتھ ہی یونانی فوجیوں اور ایرانی خواتین کی شادیاں کروائیں تاکہ دونوں قومیں ایک دوسرے کے قریب آئیں۔

البتہ سکندر کے مرنے کے بعد یونانی مردوں نے ایرانی عورتوں کو چھوڑ دیا اور اُس کا یہ تجربہ ناکام رہا۔

بادشاہ کی جانب سے ایرانی عورتوں کو جاگیریں بھی دی جاتی تھیں جو ایران کے علاوہ سلطنت کے دوسرے حصوں میں بھی یہ جاگیریں ہوا کرتی تھیں۔ ایران کے کچھ صوبوں میں عورتیں حاکم ہی ہوا کرتی تھیں جو اپنی انتظامی صلاحیتوں کی وجہ سے مشہور تھیں۔

یونانیوں کے نقطہ نظر کے برخلاف ایرانی عورتوں کے حقوق مردوں کے برابر ہوتے تھے لیکن یہ صرف امرا کے خاندان تک محدود تھے۔ نچلے طبقات کی عورتوں کو ایسی کوئی سہولتیں میسر نہ تھیں اور اُنہیں تنگی اور غربت کی حالت میں اپنی روزی کے لیے محنت کرنی پڑتی تھی۔

جاگیردار عورتوں میں ہمیں چند اُن خواتین کے نام ملتے ہیں کہ جن کا تعلق شاہی خاندان سے تو نہیں تھا لیکن اپنی ذہانت اور لیاقت سے اُنہوں نے جاگیریں حاصل کیں، دولت اکٹھی کی اور معاشرے میں بڑا نام پیدا کیا۔

 انہی میں سے اردا بانو نامی ایک خاتون نے تجارت میں خاصا نام پیدا کیا اور اس کے ملازمین کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی ۔وہ ان کی فلاح و بہبود کا خیال رکھتی تھی۔ مثلاً اُس کے دو احکامات ملے ہیں جس میں اُس نے اپنے ملازمین کے لیے چھ مہینے اور سال بھر کے لیے اناج دینے کا اعلان کیا تھا۔ اُس زمانے میں معاشرہ عورتوں کی آزادی کے حوالے سے کافی کشادہ تھا یعنی اگر کوئی عورت اپنی محنت اور قابلیت سے آگے آنا چاہتی تھی تو اس پر ایسی کوئی پابندی نہیں تھی کہ وہ معاشرتی دباﺅ کی وجہ سے پسماندہ رہ جائے۔

عورتیں نہ صرف سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیتی تھیں بلکہ وہ مردوں کے ساتھ جنگوں میں بھی شرکت کرتی تھیں اور بعض حالات میں فوج کی کمان بھی سنبھال لیتی تھیں۔ آرٹیمیزیا (پانچویں صدی ق م) نے سلامس کی بحری جنگ میں ایرانیوں کی جانب سے شرکت کرتے ہوئے اپنے جہاز کی کمان کی تھی۔ اس کی بہادری کو دیکھتے ہوئے ایرانی شہنشاہ خشایارشا اولنے کہا تھا کہ ایرانی عورتیں مرد بن گئے ہیں اور مرد عورتیں بن گئی ہیں۔

اخیمینائی عہد میں عورتوں کو بڑی حد تک قانونی حقوق حاصل تھے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی وجہ مجوسی مذہب تھا جو عورت اور مرد کو برابری کا درجہ دیتا تھا۔ لیکن ساسانی عہد کے آتے آتے ایرانی معاشرے کی صورتحال بتدریج بدلتی چلی گئی اور پدری روایات مضبوط اور عورتیں اپنی مراعات سے محروم ہوتی چلی گئیں۔

اس دوران عورت کی حیثیت ملکیت کی ہو گئی تھی اور جائیداد میں سے اُسے نصف حصہ ملتا تھا۔ بادشاہ کے حرم میں بیگمات اور کنیزوں کی تعداد بڑھ گئی تھی۔ خواجہ سرا اُن کی حفاظت پر مامور ہونے لگے تھے۔ یہ روایات تھیں جو آگے چل کر مسلمانوں کے شاہی خاندانوں میں بھی آئیں۔

اس مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ وقت کے ساتھ تاریخ کا نقطۂ نظر بدلتا رہتا ہے۔ یونانیوں نے جس نظر سے ایران کو دیکھا تھا نئی تحقیق نے اُسے غلط ثابت کر دیا اور ایرانی عورتوں کی صحیح اور درست تاریخ ہمارے سامنے آئی۔ جس کا اظہار فارسی شاعری میں ایرانی عورتوں کی خوبصورتی اور اُن کی رعنائی سے ہوتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ