ملتان: صومالی ڈاکٹر قتل ’کنڈی بند لاش باتھ روم میں کیسے پہنچی؟‘

ہاسٹل کے سکیورٹی سربراہ کی مدعیت میں ابتدائی معلومات کے تحت مقدمہ قتل کا درج کیا گیا ہے مگر ابھی تک پولیس قاتل کا سراغ لگانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔

نشتر میڈیکل یونی ورسٹی جہاں صومالیہ کے ایک طالب علم کی لاش برآمد ہوئی ہے (تصویر: نشتر میڈیکل یونی ورسٹی)

پنجاب کے جنوبی شہر ملتان میں نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے ہاسٹل میں صومالیہ کے ڈاکٹر کی لاش باتھ روم سے ملی جس کے بعد پولیس نے مقدمہ درج کرکے تفتیش کے لیے متعدد طلبہ کو حراست میں لیا ہے۔

پولیس حکام کے مطابق اس پراسرار موت کے حوالے سے پولیس تفتیش میں ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ باتھ روم کی اندر سے کنڈی لگی تھی اور لاش وہاں موجود تھی۔

پولیس کے مطابق گلے پر تیز دھار آلہ سے وار کرنے کے نشانات موجود ہیں لیکن آلہ قتل وہاں موجود نہیں تھا۔

ہاسٹل کے سکیورٹی سربراہ کی مدعیت میں ابتدائی معلومات کے تحت مقدمہ قتل کا درج کیا گیا ہے مگر ابھی تک پولیس قاتل کا سراغ لگانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔

لاش کا پوسٹ مارٹم کرا لیا گیا ہے جس میں ظاہری زخموں کے باعث ہی ہلاکت ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔

ہاسٹل انتظامیہ کے بقول سکیورٹی صرف بیرونی حصوں میں فراہم کی جاتی ہے رہائشی کمروں اور باتھ رومز کی طرف سکیورٹی اہلکاروں کو پرائیوسی کے پیش نظر تعینات نہیں کیا جاتا اور سی سی ٹی وی کیمرے بھی بیرونی اطراف لگے ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر کی لاش کیسے ملی؟

نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے ہاسٹل سکیورٹی انچارچ صباحت شیر خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’نشتر ہاسٹل کے جمال بھٹہ ھال میں بدھ کو سوئپر طارق مسیح نے آکر بتایا کہ ہاسٹل کے واش روم میں ایک لاش پڑی ہے۔

’جب ہم دیگر سکیورٹی اہلکاروں کے ہمراہ وہاں پہنچے تو واش روم کی اندر سے کنڈی لگی تھی۔ سوئپر نے بتایا کہ انہوں نے واش روم صاف کرنے کے لیے حسب معمول تمام واش رومز صاف کر لیے لیکن یہ کافی دیر سے بند ہی تھا جب نیچے سے جھانکا تو خون بہہ رہا تھا اور لاش پڑی تھی۔‘

صباحت شیر کے بقول انہوں نے دروازہ کھولا تو اندر پڑی لاش کی گردن سے خون بہہ رہا تھا جیسے تیز دھار آلہ سے وار کیے گئے ہوں مگر وہاں کوئی ایسی چیز موجود نہیں تھی جس سے زخم لگائے گئے ہوں۔

’ہم نے فوری 15 پولیس ایمرجنسی ہیلپ لائن پر کال کی اتنی دیر میں لاش سے متعلق معلومات لیں۔‘

لاش کی شناخت ڈاکٹر عبدالرحمن کے نام سے ہوئی جو صومالیہ کے شہر موغادیشو کے شہری تھے۔

نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے ہاسٹل سکیورٹی انچارج کے مطابق: ’ان کی گردن پربائیں اور دائیں جانب گہرے زخم تھے جو تیز دھار آلے یا چھری کے وار لگتے تھے۔ بظاہر لگتا تھا کہ انہیں کسی نے قتل کیا ہے اور وہ زخمی حالت میں واش روم بھاگے اور جان بچانے کے لیے اندر سے دروازہ بند کر کے کنڈی لگالی ہو۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس بارے میں مذید معلومات لیں تو معلوم ہوا کہ وہ نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے سابق طالب علم رہے ہیں اور دوماہ پہلے پیپردینے کی غرض سے یہاں قیام پذیر تھے۔

وہ کمرہ نمبر 17 میں مقیم تھے جو جو صومالیہ کے ہی ایک طالب علم ڈاکٹر عبدالعزیز کے نام پر ہے۔

صباحت شیر نے بتایا کہ پولیس نے لاش کو معائنے کے بعد پوسٹ مارٹم کے لیے بھجوا دیا اور ہاسٹل میں مقیم طلبہ اور ملازمین سے بیانات لینا شروع کر دیے۔

’پولیس نے ڈاکٹر عبدالعزیز کو بھی تفتیش کے لیےحراست میں لیا اور متعدد طلبہ کو بھی شامل تفتیش کیا ہے۔‘

قانونی کارروائی کیا ہوئی؟

ترجمان ملتان پولیس محمد فیاض کے مطابق پولیس نے واقعے کی اطلاع ملتے ہی تھانہ چہلک میں مقدمہ درج کیا جس کے مدعی ہاسٹل سکیورٹی انچارچ صباحت شیر کو بنایا گیا ہے۔

فیاض نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے لاش کا پوسٹ مارٹم کرالیا ہے جس میں گردن پر لگے زخم ثابت ہوچکے ہیں اور تفتیش کے لیے متعدد طلبہ اور ملازمین کے بیانات بھی ریکارڈ کیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ابھی تک اس کیس میں کسی کی گرفتاری نہیں ڈالی گئی کیوں کہ پولیس چھان بین کرنے کے بعد جو بھی ملوث ہوگا اس کو نامزد کرکے باقائدہ گرفتار کرے گی۔ تاہم جن افراد پر شک کیا جاسکتا ہے ان کی معلومات بھی جمع کی جارہی ہیں۔

فیاض کے بقول ابھی تک وجہ قتل بھی سامنے نہیں آسکی کیوں کہ جب تک ملزم گرفتار نہیں ہوں گے تو یہ پتہ نہیں چل سکتا کہ انہیں کیوں قتل کیا گیا۔

انہوں نے کہاکہ صومالیہ سے ان کے لواحقین یا سفارت خانے کی جانب سے رابطہ کی اطلاع نہیں اگر وہ پولیس سے رجوع کریں گے تو لاش ان کے حوالے کی جائے گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان