سول سسٹرز پاکستان: تین لاکھ پاکستانی خواتین کی آن لائن کمیونٹی

’سول سسٹرز پر آپ کو خواتین کے ذاتی و گھریلو مسائل سے لے کر کریئر، گھر سجانے، کھانا پکانے، پڑھائی، امیگریشن، صحت اور دیگر کئی موضوعات پر گفتگو ملے گی۔‘ 19 اگست کو یہ گروپ اپنی تخلیق کے نو سال مکمل کر لے گا۔

انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے انٹرویو میں پاکستانی خواتین کے سب سے بڑے فیس بک گروپ سول سسٹرز کی بانی کنول احمد کا پوز۔ (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

’رات کے دو بجے ہیں، مجھے اور میری والدہ کو دو سوٹ کیسز کی سخت ضروت ہے۔ ہم اب کبھی اس گھر میں واپس نہیں آسکیں گے۔ اگر اس وقت سول سسٹرز پر میری کوئی بہن جاگ رہی ہے تو وہ میری مدد کردے۔ میں اپنی والدہ کے ساتھ کہیں پناہ لینے کے بعد سوٹ کیسز کی قیمت ادا کردوں گی۔‘

انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے انٹرویو میں پاکستانی خواتین کے مشہور فیس بک گروپ سول سسٹرز کی بانی کنول احمد نے بتایا کہ ’جب مذکورہ پوسٹ سول سسٹرز پر آئی تو پاکستان میں رات کے دو بج رہے تھے اور کینیڈا میں سورج طلوع ہوا تھا۔ اتفاق سے میں اس وقت جاگ رہی تھی۔ میں نے غیر ارادی طور پر گروپ کھولا تو میری نظر کے سامنے سے یہ پوسٹ گزری جس میں ایک خاتون دو سوٹ کیسز کی درخواست کر رہی تھی۔‘

’میں نے فوری طور پر اس پوسٹ کو شائع کرنے کی اجازت دی۔ تھوڑی ہی دیر میں کئی خواتین نے اس پوسٹ کے نیچے کمنٹس کرنا شروع کر دیے۔ مذکورہ خاتون نے صرف دو سوٹ کیسز مانگے تھے مگر چند منٹوں میں دس سے زائد سوٹ کیسز ان کے لیے تیار تھے۔ تاہم ان میں سے دو سوٹ کیسز فوری طور پر ان کے بتائے ہوئے پتے پر پہنچا دیے گئے۔‘

کنول کا کہنا ہے کہ ’دیگر خواتین نے ان خاتون کو ٹرانسپورٹ اور اپنے گھر میں پناہ دینے کی پیش کش بھی کی۔ مگر وہ خاتون باحفاظت اپنی والدہ کے ساتھ اپنے رشتےداروں کے گھر پہنچ گئیں۔ انہوں نے پہنچتے ہی سول سسٹرز کی تمام خواتین کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ جس وقت میں بے یار و مددگار تھی یہ گروپ میرا سہارا بنا۔‘

کنول کے مطابق فیس بک پر سول سسٹرز پاکستان ایک پرائیویٹ گروپ ہے جس کا آغاز انہوں نے 2013 میں کیا تھا۔ اس گروپ پر تین لاکھ سے زائد خواتین ہیں اور ہر ماہ 60 لاکھ سے زائد باتیں ہوتی ہیں۔ 19 اگست کو یہ گروپ اپنی تخلیق کے نو سال مکمل کر لے گا۔

کنول احمد کا تعلق کراچی سے ہے مگر وہ کینیڈا میں رہائش پذیر ہیں اور وہیں سے گروپ چلاتی ہیں۔ ان کا ’کانورسیشنز ود کنول‘ کے نام سے ایک ٹاک شو بھی آتا ہے جس میں وہ مختلف خواتین کے انٹرویوز کرتی ہیں اور ان کے مسائل بیان کرتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 2018 میں کنول احمد فیس بک کمیونٹی لیڈرشپ پروگرام میں منتخب ہوئی تھیں۔ اس پروگرام کے تحت سول سسٹرز پاکستان کو 50 ہزار ڈالرز کی گرانٹ بھی ملی تھی۔

کنول احمد نے بتایا کہ ’میں نے جب یہ گروپ بنایا تھا تو مجھے اس کا بالکل اندازہ نہیں تھا کہ یہ اتنا مقبول ہوجائے گا۔ سول سسٹز پاکستان کی کوئی شاخ نہیں ہے مگر کئی مرد و خواتین نے اس گروپ سے متاثر ہو کر فیس بک پر اس کے نام سے ملتے جلتے کئی گروپس بنا لیے ہیں مگر ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘

ان کے مطابق ’سول سسٹرز پر روزانہ کی بنیاد پر 1500 سے 2000 پوسٹس آتی ہیں۔ مگر ہم صرف 100 پوسٹس کو ہی شائع ہونے کی اجازت دیتے ہیں۔ یہ اس لیے ہے کیوں کہ اگر ہم ہر پوسٹ کو شائع کردیں گے تو اس سے گروپ کا معیار کافی متاثر ہوگا۔ سول سسٹز اپنے معیار کے لیے جانا جاتا ہے اور اس لیے بھی کہ خواتین یہاں اپنی باتیں شیئر کرنے میں تحفظ محسوس کرتی ہیں۔‘

کنول کہتی ہیں کہ ’مجھے ہمیشہ سے صحافی بننے کا شوق تھا۔ میں بچپن سے پر عزم تھی کہ بڑی ہو کر صحافی ہی بنوں گی مگر معاشرتی دباؤ اور اجازت نہ ملنے کے باعث صحافت کا ارادہ ترک کرنا پڑا۔ بہر حال میں نے کراچی کی جامعہ آئی بی اے (انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنٹسٹریشن) سے کاروبار کے شعبے میں تعلیم حاصل کی۔‘

ان کے مطابق ’سول سسٹرز پر آپ کو خواتین کے ذاتی و گھریلو مسائل سے لے کر کریئر، گھر سجانے، کھانا پکانے، پڑھائی، امیگریشن، صحت اور دیگر کئی موضوعات پر گفتگو ملے گی۔ میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ سول سسٹرز پر تقریبا دنیا کا پر موضوع زیر بحث آتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سٹائل