پاکستان: اعلیٰ عدالتوں میں خواتین ججوں کی تعداد کم کیوں؟

قانون کے شعبے میں خواتین کی موجودگی کوئی اچنبھے کی بات نہیں لیکن اب تک پاکستان میں ایک بھی خاتون چیف جسٹس سامنے کیوں نہیں آ سکیں؟ ہائی کورٹ میں بھی خواتین کا تناسب ہمیشہ انتہائی کم رہا ہے۔ اس سلسلے میں انڈپینڈنٹ اردو نے چند حقائق جاننے کی کوشش کی ہے۔

سپریم کورٹ اسلام آباد بتاریخ 25 جولائی 2022 (تصویر: اے ایف پی)

 اکیسویں صدی میں خواتین کی زیادہ تعداد کو مختلف شعبوں میں اپنا ہنر، فن اور قابلیت آزماتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ ان ہی میں سے ایک شعبہ قانون ہے۔

اس شعبے میں خواتین کی موجودگی پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں بھی کوئی اچنبھے کی بات نہیں رہی لیکن کیا وجہ ہے کہ آج تک اس ملک میں ایک بھی خاتون چیف جسٹس سامنے نہیں آئیں؟ ہائی کورٹ کی بات کریں، تو اس میں بھی خواتین کا تناسب مردوں کے مقابلے میں ہمیشہ انتہائی کم رہا ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں پچھلے ہفتے 19 جولائی کو پشاور ہائی کورٹ میں تین ایڈیشنل ججز  شاہد خان، فضل سبحان اور خورشید اقبال کی تقرری ہوئی۔

چھ ماہ قبل بھی تین ایڈیشنل ججز کی تقرری ہوئی تھی لیکن یہ سلسلہ پشاور ہائی کورٹ کے قیام کے وقت سے ہی چلا آرہا ہے کہ جب بھی عدلیہ میں تقرریوں کا کوئی اعلان ہوتا ہے، اس میں صرف مردوں کے نام ہی سامنے آتے ہیں۔

مثال کے طور پر، اگر ہم پاکستان کے پانچ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں خواتین ججوں کی فہرست دیکھیں تو ملک کی تاریخ میں صرف ایک خاتون سیدہ طاہرہ صفدر چیف جسٹس کے عہدے تک پہنچی ہیں، اور صرف ایک خاتون عائشہ ملک سپریم کورٹ کی جج بنی ہیں۔ سیدہ طاہرہ صفدر 2018 میں بلوچستان ہائی کورٹ کی چیف جسٹس بنی تھیں۔

علاوہ ازیں، اگر ہائی کورٹس میں خواتین ججز کی بات کریں تو خیبر پختونخوا میں 1970 سے لے کر 2022 تک صرف تین خواتین ہائی کورٹ ججز بنی ہیں، جن میں خالدہ راشد خان جو کہ نہ صرف خیبر پختونخوا کی پہلی جج بلکہ پاکستان کی ’سپیرئر جوڈیشری‘ میں بھی پہلا نام ہیں، 1994 میں پشاور ہائی کورٹ کی جج بنی تھیں۔

ان کے بعد کسی خاتون جج کے لیے پشاور ہائی کورٹ کا خلا اٹھارہ سال بعد پُر ہوا جب جسٹس ارشاد قیصر 2012 میں جج بنیں۔ 2013 میں جسٹس مسرت ہلالی کی تقرری ہوئی جو تاحال پشاور ہائی کورٹ کی جج ہیں۔ اس طرح کل تعداد تین بنتی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ میں 1994 میں تین خواتین ایڈیشنل ججز کی تقرری کے سات سال بعد 2001  میں  اور پھر گیارہ سال بعد 2012 میں جسٹس عائشہ ملک کی تعیناتی ہوئی تھی جو جنوری 2022 تک لاہور ہائی کورٹ کی جج رہیں۔

اسی طرح سندھ ہائی کورٹ میں پہلی دفعہ خواتین ایڈیشنل ججز مسز قیصر اقبال  اور یاسمین عباسی 2005 میں تعینات ہوئی تھیں۔ ان کے بعد 2013 میں مسز اشرف جہان کی بطور سندھ ہائی کورٹ جج تقرری ہوئی تھی۔

اگر اسی تناظر میں  دیکھا جائے توبلوچستان ہائی کورٹ میں ایک بھی خاتون جج کی تقرری نہیں ہوئی ہے جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک خاتون جج لبنیٰ سلیم پرویز 2019 میں ایڈیشنل جج رہ چکی ہیں۔

اس تمام پس منظر کو سامنے لانے کا مقصد یہ جاننا ہے کہ خواتین کا جسٹس کیڈر  میں تناسب کتنا ہے اور ان کی غیر موجودگی کی یہ خلا کتنے عرصے پر محیط رہی ہے۔

اس موضوع پر اظہار خیال فرماتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ کے وکیل شبیر حسین گگیانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’نہ تو قانون اور نہ ہی کسی اور نے خواتین کا راستہ روکا ہے، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ہائی کورٹ جج کے انتخاب کے لیے جو کرائٹیریا مقرر ہے، اس کے لیے ذیلی سطح پرخواتین ہی نہیں ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’ہائی کورٹ کے لیے 50 فیصد کا فارمولہ ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ خالی اسامیوں پر آدھے لوگ شعبہ وکالت اور آدھے عدلیہ سے لیے جائیں گے۔ جب یہ طے ہوجاتا ہے، تو پھر سینیارٹی، تجربہ، تعلیم، کیس ورک، فائل ورک دیکھا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے سینیارٹی کی کیٹیگری میں خواتین نہیں ہیں، ورنہ ان کو تو ہر جگہ نمائندگی ملی ہوئی ہے۔‘

شبیر حسین گگیانی کی طرح پشاور یونیورسٹی  میں شعبہ وکالت کے ایک طالبعلم محمد اسرار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ سوال کہ خواتین ججز کا تناسب کیوں کم ہے، قدرے فیمینسٹ تاثر رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خواتین  کی اکثریت خود ہی شغف نہ رکھتی ہوں وکالت بطور مضمون اختیار کرنے یا اس میں مزید آگے بڑھنے سے۔‘

تاہم حقوق نسواں پر کام کرنے والی شاہدہ کاکاخیل اسے مختلف زاویے سے دیکھتی ہیں اور یہ سمجھتی ہیں کہ دراصل خواتین کو ایک  خاص حد تک تو کسی بھی ادارے میں موقع دے دیا جاتا ہے، لیکن پدرسری نظام اسے اعلیٰ درجے تک  پہنچنے نہیں دیتا۔

’اکثر مردوں کو جہاں خواتین سے پیچھے رہ جانا مردانیت کی توہین لگتی ہے، وہیں وہ خواتین کے سینئر پوسٹ پر جانےسے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ’بڑے عہدوں پر اکثر بڑے لیول کی کرپشن ہوتی ہے جس میں مردوں کے ملوث ہونے کی ایک وجہ ان پر گھریلو ذمہ داریوں کا بوجھ ہے۔ دوسری جانب  خواتین کی اکثریت پر چونکہ گھربار کی  ذمہ داری نہیں ہوتی اور وہ جیل جانے سے بھی ڈرتی ہیں، لہذا، یہ خیال کیاجاتا ہے کہ خود تو وہ کرپشن نہیں کریں گی لیکن کرپشن کرنے والوں کو بے نقاب کردیں گی۔‘

شاہدہ کاکا خیل نے انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’اگرچہ بڑے عہدوں پر خواتین کی مثالیں موجود ہیں لیکن ان کا پس منظر نہیں معلوم کہ ہوسکتا ہے وہ خاندان کی جانب سے زیادہ مضبوط اور اثررسوخ والی ہوں۔‘

انہوں یہ بھی کہا کہ ’اگرچہ سپریم کورٹ میں عائشہ ملک کی تقرری ہوگئی لیکن یہ سب اتنی آسانی سے نہیں ہوا، اور ان کا حوصلہ پست کرنے، ان کو کمزور کرنے کی کوششیں بھی بہت ہوئیں۔‘

جب انڈپینڈنٹ اردو نے عوامی رائے جاننے کے لیے سوشل میڈیا پر یہ سوال کیا کہ آیا واقعی طالبات وکالت کے مضمون یا اس میں کریئر بنانے کی خواہاں نہیں ہیں، تو ماہم حیات نامی ایک خاتون نے کہا کہ انہوں نے ایک مرتبہ وکالت کو کرئیر بنانے کی خواہش کا اظہارکیا تھا، جس پر ان کے والد جو کہ پیشے کے لحاظ سے ایک وکیل ہیں، نے انہیں یہ کہہ کر منع کیا تھا کہ وہ کبھی ایسی جگہ اپنی بیٹی کو نہیں بھیجیں گے، جہاں خواتین کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے ان کے ساتھ ہرطرح کا برتاؤ کیا جاتا ہو۔

’میرے والد ہمیشہ میری سپورٹ کرتے ہیں، لیکن انہوں نے کہا کہ بیٹی میں سالوں وکالت سے وابستہ رہا، اور ہمیشہ خواتین کے ساتھ زیادتی ہوتے دیکھتا رہا، اور یہی وجہ ہے کہ وہ سیشن کورٹ سے زیادہ آگے نہیں جاتیں۔ بہت خوش قسمت ہوئیں تو تھوڑا اس سے آگے چلی جائیں گی۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان