ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر وقتی طور پر بحال ہونے کے بعد کار ساز اداروں نے گاڑیوں کی قیمتیں کم کرنی شروع کی ہیں اور تینوں جاپانی کمپنیز کے بعد اب چینی ادارے بھی قیمتیں کم کرنے کی نہج پر آچکے ہیں لیکن کِیا نے اب تک قیمتیں کم نہیں کیں۔
18 اگست کو پاکستانی کار صارفین کے لیے لکی موٹرز گروپ کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان کے مطابق ’ہم نے اپنی گاڑیاں لانچ کرنے کے بعد دو سال تک ان کی قیمتیں نہ بدلنے کا عزم کیا۔‘
’18 جولائی کو، جب پاکستان کے تمام کار ساز ادارے ڈالر کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے قیمتیں تبدیل کرنے کے لیے مجبور ہو چکے تھے، ہم نے اپنی قیمتوں میں 14 فیصد اضافہ کیا جو ہمارے خیال میں بالکل مناسب تھا۔‘
’دوسری جانب باقی کار ساز اداروں نے اپنی قیمتوں میں 19 سے 23 فیصد تک اضافہ کیا جسے حال ہی میں نظر ثانی کر کے ہماری (کِیا موٹرز) قیمتوں کے آس پاس (یعنی 14 فیصد) پر لایا گیا ہے۔‘
اس بیان کے بعد ایک جدول دیکھا جاسکتا ہے جس میں باقی سارے کار ساز اداروں کی قیمتوں میں اضافہ 19 سے 23 فیصد تک ہے جسے بعد میں نرخ کم کر کے وہ چھ سے نو فیصد کے درمیان لاتے ہیں اور دوسری جانب کِیا پہلے دن سے 14 فیصد پر موجود ہے اور جاری شدہ بیان کے مطابق اپنی قیمتوں پر نظر ثانی کرنے کا ارادہ بھی کوئی نہیں ہے۔
گاڑیوں کی موجودہ قیمتیں
جس وقت ڈالر کی قیمت 235 روپے کے آس پاس تھی تب یہ کہانی شروع ہوئی اور 240 کا پھیرا لگانے کے بعد جب ڈالر 214 کے اعشاریوں میں پایا جا رہا ہے تب یکے بعد دیگرے تمام اداروں کی جانب سے قیمتیں گھٹانے کے بیانات سامنے آئے ہیں۔
لیکن قیمتوں میں اضافہ بہت زیادہ ہوا تھا اور ان میں کمی اس نسبت سے کافی کم ہوئی ہے۔ فیصد کے حساب سے بات اتنی سمجھ میں نہیں آتی جیسے کِیا والوں نے کہا کہ دوسرے اداروں نے کمی چھ سے نو فیصد تک کی۔ اب یہ چھ سے نو فیصد کی صورتحال اصل میں کیا ہے، تین چار مشہور گاڑیوں کے ریٹ سے اندازہ لگا لیں۔
ٹویوٹا یارس (ATIV X, CVT – 1.5) میں نو لاکھ 10 ہزار کا اصافہ ہوا تھا لیکن کمی ہوئی صرف تین لاکھ 10 ہزار کی ۔۔۔ باقی چھ لاکھ کدھر گئے؟ (موجودہ قیمت 42 لاکھ 59 ہزار روپے)۔
کرولا (Altis 1.8 Grande) میں 12 لاکھ نوے ہزار بڑھے، چار لاکھ 40 ہزار کم ہوئے، باقی ساڑھے آٹھ لاکھ کا فرق اب بھی موجود ہے۔ (موجودہ قیمت 57 لاکھ 49 ہزار روپے)
اسی طرح ہونڈا سٹی (Aspire 1.5L CVT) میں اضافہ نو لاکھ ہوا لیکن کمی ہوئی تین لاکھ 20 ہزار کی (موجودہ قیمت 44 لاکھ 79 ہزار)، سوک میں ساڑھے 14 لاکھ بڑھے مگر پانچ لاکھ کم ہوئے اور بی آر وی میں بھی ساڑھے 10 لاکھ روپے قمیت کا اضافہ ہوا جس میں تین لاکھ 60 ہزار کمی کی گئی۔
ساڑھے چھ لاکھ روپے اضافے کے بعد سوزوکی سوئفٹ (GLX- CVT) میں دو لاکھ روپے کم ہوئے۔ (موجودہ قیمت 37 لاکھ 60 ہزار روپے)
کِیا نے بڑھا کر قیمت کم کیوں نہیں کی؟
مختلف کار ساز اداروں کے ترجمان رہنے والے علی حسن سے اس بارے میں انڈپینڈنٹ اردو نے بات کی تو ان کا یہ کہنا تھا کہ ’اس ساری بات کو آپ ایک مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔ ٹویوٹا گرینڈی اس وقت 49 لاکھ کی تھی، جولائی 2022 میں بڑھائی تو ایک دم 62 لاکھ کی ہو گئی۔ اگست میں کم کی تو اب 57 لاکھ ہو گئی۔ یعنی آٹھ لاکھ روپے وہ اس گاڑی پہ بڑھا رہے ہیں جو دو جنریشن پرانی ہے؟
سات آٹھ سال پرانا ماڈل ہے، ٹویوٹا اس پر 60، 65 فیصد لوکلائزیشن کلیم کرتی ہے (یعنی گرینڈی کے 60 فیصد پرزے پاکستان میں بنتے ہیں۔)‘
’اب سپورٹیج کی بات کر لیں۔ گرینڈی سے بہتر کلاس کی گاڑی ہے۔ دو سال بعد نو لاکھ قیمت بڑھائی اور 63 لاکھ سے 72 لاکھ کی گاڑی ہو گئی۔ صرف دو سال پرانا ماڈل ہے، لوکلائزیشن بھی کم ہے، کِیا اس پر تقریباً 35 فیصد لوکلائزیشن کلیم کرتی ہے۔ جو قیمت بڑھائی اسی پر قائم ہے اور فی صد اضافہ دیکھیں تو وہ بھی گرینڈی کی نسبتاً کم ہے۔‘
’پیجو کو بھی لکی موٹرز گروپ دیکھتا ہے۔ اس کی قیمتیں لانچ سے اب تک بالکل نہیں بڑھیں۔ بکنگ بھی کھلی ہے، دو سے تین ماہ میں مل بھی جاتی ہے۔ تو کِیا کی پرائس سٹرٹیجی آپ دیکھیں، وہ پہلے دن سے زیادہ پائیدار تھی۔‘
قیمتیں کم کرنے کے لیے پچھلی حکومت کا فورینزک آڈٹ کہاں تک پہنچا؟
تحریک انصاف حکومت کے آخری سال میں مارچ 2022 کے دوران وزیراعظم پورٹل پر گاڑیوں کی قیمتیں بڑھنے کے بعد جب بہت زیادہ شکایات درج کرائی گئیں تو سابق حکومت نے اس معاملے کی تحقیق اور سدباب کے لیے ایک مانیٹرنگ کمیٹی ایسی بنائی جس میں حکومتی نمائندے، کار ساز اداروں کے نمائندے اور آٹو پارٹس بنانے والی کمپنیوں کے نمائندے شامل تھے۔
مانیٹرنگ کمیٹی کے اجلاس میں آڈٹ کا فیصلہ ہوا تاکہ دیکھا جائے کہ بڑھتی قیمتیں اور ان کا جواز کس حد تک درست ہے۔
اس کمیٹی آڈٹ نے گاڑیوں میں سیفٹی کی بین الاقوامی سہولیات، مجموعی معیار، باہر سے منگائے گئے پرزوں کی لاگت، مقامی خام مال کی قیمتیں اور گاڑی کی ڈیلیوری کے وقت کو بھی چیک کرنا تھا۔
اس سارے نظام کو کسی تھرڈ پارٹی آڈٹ فرم سے بھی چیک کروانے کا فیصلہ کیا گیا۔
کُل ملا کر حکومت کا مقصد یہ تھا کہ جس قیمت میں گاڑی خریدار کو مل رہی ہے کیا وہ قیمت واقعی ٹھیک ہے یا کسی ایک حد سے زیادہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس بارے میں جب علی حسن سے پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ ’میٹنگز ہوئیں، سوال جواب ہوئے لیکن اس کے بعد کوئی خاص پیشرفت نہیں ہوئی۔‘
پاک وہیلز کے سی ای او سنیل سرفراز منج سے جب اس بارے میں سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ’جب یہ خبر آئی تھی تو اسی وقت میں نے آپ سے کہا تھا کہ یہ بڑی عجیب سی بات ہے۔ دنیا میں ایسا کوئی آڈٹ نہیں ہو سکتا۔‘
’یہ ایسی ہی بات ہے جیسے آج گورنمنٹ کہے کہ ہم کوکا کولا اور پیپسی کا آڈٹ کریں گے۔ گورنمنٹ کا کام نہیں ہے قیمت کا آڈٹ کرنا۔ اگر تو وہ کہیں کہ ہم کسی چیز پہ سبسڈی دیتے ہیں، جیسے ائیر بیگ ڈیوٹی فری منگانے دیتے ہیں اور انہوں نے چیک کرنا ہو کہ صارف کو قمیت میں اس چیز کی رعایت مل رہی ہے، تب تو بات سمجھ آتی ہے۔ ورنہ یہ نری شعبدے بازی ہے۔‘
’یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی شرارتی بچے کو بلائیں اور بس اسے ہلکی سی تنبیہہ کر کے بھیج دیں کہ اب تم نے کچھ نہیں کرنا۔ باقی یہ حکومت جب سے آئی ہے، اس کے تو پیٹرول والے مسئلے نہیں ختم ہو رہے۔ اس فورینزک کمیٹی کا کچھ نہیں بننا، سب کچھ یونہی چلتا تھا اور چلے گا۔‘
کار ساز اداروں کا مجموعی موقف
قیمتیں بڑھانے اور بعد میں تھوڑی کم کرنے کے دوران جو وجوہات کار ساز اداروں کی جانب سے بتائی گئیں ان کا مجموعی خلاصہ علی حسن کے مطابق یہ ہے کہ ’ایل سی کوٹہ پہلے سو گاڑیوں کا ملتا تھا، اب پچاس کا ملتا ہے۔ پہلے جو ریٹ کمپنیاں سو گاڑیوں کے لیے طے کرتی تھیں وہ اب پچاس گاڑیوں کے لیے نکالنا ہوتا ہے۔‘
’فکسڈ کاسٹ وہی ہے لیکن کمپنیاں کم گاڑیاں بنانے پہ مجبور ہیں۔ کم سے کم اجرت بھی حکومت کی جانب سے بڑھ گئی ہے۔‘
’افراط زر بڑھی تو لیبر کی تعداد وہی تھی، کمپنیوں نے کسی کو نکالا نہیں بلکہ تنخواہیں بڑھائیں، پرانی تنخواہ پہ اب لوگ کام کرنے کو تیار بھی نہیں ہیں۔‘
’بجلی کے ریٹس میں اضافہ ہوا، پیٹرول کے ریٹ بڑھ گئے، کچھ چیزیں جنریٹر پہ بھی بنتی ہیں تو ان کی پیداواری لاگت بھی کئی گنا بڑھ چکی ہے۔‘
ایل سی (لیٹر آف کریڈٹ) کیا ہے؟
کار ساز ادارے گاڑیاں بنانے کے لیے بیرون ملک سے جو پارٹس (CKD اور CBU) منگواتے ہیں اس کے لیے انہیں کمرشل بینکوں کے ذریعے سٹیٹ بینک آف پاکستان میں ایک گزارش دینا ہوتی ہے۔ اسے کاروباری زبان میں ایل سی کھولنا کہتے ہیں۔ ایل سی کے عمل میں بیرون ملک پارٹس کی کمپنی پاکستانی آٹو کمپنی کو یہ گارنٹی دیتی ہے کہ دونوں کے درمیان بینک کے ذریعے پیسوں کا ٹرانسفر ممکن ہوگا۔‘ چونکہ بیرون ملک کمپنیوں کو ادائیگی ڈالر میں ہی ہوتی ہے اس لیے ملک میں ڈالر کے ریزرو باقی رکھنے کے لیے حکومت کم سے کم ایل سی کھولنے کو ترجیح دے رہی ہے۔