سیلاب کے بعد امداد: غیر ملکیوں کی تنقید پر پاکستانیوں کا جواب

سیلاب اور طوفانی بارشوں کے باعث مشکلات کے شکار پاکستان میں حالات کی ابتری تو اپنی جگہ، مگر دیگر ممالک کے شہری پاکستان میں حالات اور اس کے حل کو کیسے دیکھتے ہیں، اس کا اظہار وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کرتے دکھائی دیے ہیں۔

31 اگست 2022 کی اس تصویر میں صوبہ سندھ کے ضلع شکارپور میں سیلاب سے متاثرہ افراد پانی میں ڈوبے اپنے گھروں سے سامان لے کر جا رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان کے طول و عرض میں شدید بارشوں اور سیلاب نے تباہی مچا دی ہے، جس کے باعث ملک بھر میں بھاری جانی اور مالی نقصان ہوا ہے۔

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی جانب سے گذشتہ روز جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق بارشوں سے ایک ہزار 162 اموات پورٹ ہوئی ہیں جب کہ لاکھوں مویشی ہلاک اور سینکڑوں گھر تباہ ہوئے ہیں۔

اس صورت حال سے نمٹنے اور عوام کو اس آفت سے نکالنے کے لیے جہاں شہری اپنے طور پر امداد اکٹھی کرکے آفت زدہ علاقوں کے رہائشیوں کو مدد فراہم کر رہے ہیں، وہیں ملک کی سیاسی و عسکری قیادت نے بھی مشکل کی اس گھڑی میں دنیا سے امداد کی اپیل کی ہے تاکہ مشکلات میں گھری عوام کو ریلیف فراہم کیا جا سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صورت حال کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے چند ممالک نے پاکستان کے لیے امداد کا اعلان کیا ہے جب کہ ترکی اور چین جیسے دوست ممالک نے امدادی سامان بھجوانا بھی شروع کر دیا ہے۔

سیلاب اور طوفانی بارشوں کے باعث مشکلات کے شکار پاکستان میں حالات کی ابتری تو اپنی جگہ، مگر دیگر ممالک کے شہری پاکستان میں حالات اور اس کے حل کو کیسے دیکھتے ہیں، اس کا اظہار وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کرتے دکھائی دیے ہیں۔

آسٹریلوی ویب سائٹ لیڈ بائبل نے فیس بک پر ایک پوسٹ شیئر کی، جس کے ساتھ تحریر درج تھی: ’پاکستان مدد کے لیے پکار رہا ہے اور اب ایک ’چھوٹے سمندر سے مشابہہ‘ نظر آ رہا ہے۔‘

اس پوسٹ پر کمنٹ کرتے ہوئے فیس بک صارف جیکی پرس نے تحریر کیا: ’انہیں (پاکستانیوں کو) نقد رقم دینے کے بجائے افرادی قوت فراہم کریں۔ انجینیئرز وہاں جائیں اور سڑکوں کے ساتھ ساتھ زیر زمین یا اس کے اوپر نالیاں بنائیں (جیسا کہ امریکہ میں بھی ہوتا ہے)۔ اس پانی کو خشک سالی کے دوران استعمال کیا جاتا ہے۔‘

انہوں نے پاکستانی حکمرانوں پر تنقید کرتے مزید لکھا: ’نقد رقم تو حکومتی حکام کے لیے سونے کے پانی چڑھے ہوئے نلکوں پر استعمال ہو جائے گی، جیسا کہ ہم نے پہلے بھی دیکھا ہے۔‘

اس کمنٹ کے جواب میں عاصم جبار نے لکھا: ’ہمیں پانی ذخیرہ کرنے اور سیلاب سے بچنے کے لیے مزید ڈیموں کی ضرورت ہے۔ امریکہ اور بین الاقوامی عطیہ دہندگان ہمارے شمالی علاقہ جات میں ڈیم بنانے میں مدد کریں تاکہ گرمیوں میں گلیشیئر کا پانی ذخیرہ کیا جا سکے۔‘

ضعیم اقبال نامی صارف نے سابق پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے اپنی حکومت کے خاتمے سے متعلق بیرونی سازش کے بیانیے کو دہراتے ہوئے لکھا: ’امریکہ کرپٹ حکومت کو لے آتا ہے تاکہ ممالک کے اندرونی معاملات میں اپنا اثر ورسوخ برقرار رکھ سکے۔‘

حسن امام کا کہنا تھا: ’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ ہماری حکومت کرپٹ ہے، جو بھی رقم دی جاتی ہے وہ اسے مغربی دنیا میں انویسٹ کر دیتے ہیں۔ ہاں یہ بہتر ہے کہ تکنیکی امداد فراہم کرکے اور رقم کس مد میں خرچ کی گئی، اس کا حساب کیا جائے تو بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔‘

طلال شفیع نے آسٹریلوی ویب سائٹ کے الفاظ کے چناؤ پر تنقید کرتے ہوئے تحریر کیا: ’کیا ایڈمن کوئی حوالہ دے سکتے ہیں جہاں پاکستانی حکومت نے مدد کے لیے ’بھیک‘ مانگی ہو۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’الفاظ کا چناؤ درست کریں، یہ عالمی اقدار میں سے ایک ہے کہ قدرتی آفات آنے پر قومیں ایک دوسرے کی مدد کرتی ہیں۔ قومیں امداد مانگتی اور دیتی ہیں، بھیک نہیں۔‘

انیز اینگارڈٹ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا: ’وہاں ہر سال مون سون بارشیں ہوتی ہیں اور ہر سال وہی نتیجہ نکلتا ہے۔ کیا وہ منصوبہ بندی نہیں کر سکتے اور ڈیم نہیں بنا سکتے؟ سیلاب کو روکنے کی حکمت عملی ترتیب نہیں دے سکتے؟ ہر بار ایسے مواقع پر مدد مانگتے ہیں مگر مکمل طور پر اس کی تصحیح کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ یہ ایک سنجیدہ سوال ہے، آخر کیوں نہیں کرتے؟‘

انہیں جواب دیتے ہوئے کِم ہیتھ نے تحریر کیا: ’اس مرتبہ کی بارشوں کو ’ریکارڈ‘ بارشیں قرار دیا گیا ہے جس کی وجہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گرمی کا بہت بڑھ جانا بھی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ایسے میں سیلاب کو روکنے کے لیے استعمال ہونے والے آلات کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور یہ دنیا میں کسی بھی جگہ ہو سکتا ہے۔‘

سہارا نامی صارف نے جواباً تحریر کیا: ’اس لیے کہ وہ غریب ملک ہے۔ تھوڑا رحم دلی کا مظاہرہ کریں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل