جن دنوں ہم دسویں جماعت میں پڑھتے تھے ان دنوں ہمارے اساتذہ ایک بات بہت شد و مد سے کہا کرتے تھے کہ بیٹا اگر میٹرک میں نمبر کم آئے تو ساری عمر دھکے کھاؤ گے۔ اس خوف سے ہم نے میٹرک میں محنت کی اور اچھے نمبروں سے پاس ہو گئے۔
اس کے بعد ایف ایس سی میں داخلہ لیا تو ایک ایسے استاد سے پالا پڑا جو ہمیں کیمسٹری پڑھاتے تھے۔ ان کا پسندیدہ جملہ تھا کہ ایم ایس سی کیمسٹری کرنے والا کبھی بھوکا نہیں مر سکتا۔ یقین مانیں کہ اس زمانے میں یہ بات ہمیں موٹیوویٹ کرنے کے لیے کی جاتی تھی، ہمیں اتنی سمجھ بوجھ بھی نہیں تھی کہ اس جملے کی پڑتال کرسکیں اور سوچیں کہ کیا واقعی ہم اتنے ’لوزر‘ ہیں کہ یہ جملہ ہماری ہمت بڑھانے کے لیے بولا جا رہا ہے۔
خیر، ہاتھ پاؤں مار کے ہم نے ایف ایس سی بھی کر لی مگر اس کے بعد تہیہ کر لیا کہ اساتذہ کی باتوں میں نہیں آنا۔ یہ فیصلہ اتنا غلط بھی ثابت نہیں ہوا، ہم نے موج مستی سے پڑھائی مکمل کی، عملی زندگی میں آئے اور آج تک گزارا کر ہی رہے ہیں۔ اب میں سوچتا ہوں کہ لڑکپن میں جو باتیں ہمیں بڑے بزرگوں نے سمجھائی تھیں کیا واقعی ان میں کوئی حقیقت تھی یا وہ فقط کتابی باتیں تھیں۔
مثلاً ایک بات اکثر غیر محسوس انداز میں کہی جاتی تھی کہ سکول میں زیادہ نمبر لینے والے ہی زندگی میں کامیاب ہوں گے۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اس بات میں کوئی سچائی نہیں کیونکہ لائق فائق بچے بہرحال زندگی میں کہیں نہ کہیں کھپ ہی جاتے ہیں، مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ کم نمبر لینے والے زندگی میں کچھ کر ہی نہیں سکتے۔
آئے روزہمارا واسطہ ایسے لوگوں سے پڑتا ہے جنہوں نے کالج کی شکل نہیں دیکھی ہوتی مگر وہ کئی کارخانے کامیابی سے چلا رہے ہوتے ہیں۔ سو آج میں نے وہ باتیں یاد کیں جو لڑکپن میں ہمارے دماغ میں بٹھائی گئی تھیں اور سوچا کہ کیا واقعی عملی زندگی میں ایسا ہی ہوا جیسا ہمیں سمجھایا گیا تھا یا زندگی نے کچھ اور ہی روپ دکھایا!
پہلی بات جو مجھے یاد آئی وہ دوستی سے متعلق تھی۔ سکول کے زمانے میں ہم سمجھتے تھے کہ دوستوں کا ساتھ ہمیشہ رہے گا، کچھ اس زمانےکی فلمیں بھی ایسی ہی ہوا کرتی تھیں، انہیں دیکھ کر ہمیں لگتا تھا کہ کسی دن ایسا ہوگا کہ ایک دوست کو دوسرے کی خاطر جان قربان کرنی پڑے گی اور یہ فیصلہ سکہ اچھال کر کیا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ یہ نوبت نہیں آئی بلکہ شکر ہے کہ نہیں آئی۔ سکول کے بعد تمام دوست بکھر گئے، بعد میں کئی برس بعد ان سے ملاقات ہوئی مگر وہ دوستی دوبارہ نہیں ہوئی جو سکول میں تھی۔
اصل میں ہم جنہیں دوست سمجھتے ہیں وہ دوست نہیں ہوتے، وہ محض وقت گزارنے کا ذریعہ ہوتے ہیں اور موج مستی میں ساتھ ہوتے ہیں۔ سکول کی موج مستی ختم ہوئی تو دوستی بھی ختم ہو گئی۔
سکول کے زمانے میں ایک غلط فہمی ہمیں یہ بھی تھی کہ دنیا کے قابل ترین افراد ہی ٹاپ پر ہیں اور وہی اسے چلا رہے ہیں۔ ہم سمجھتے تھے کہ بڑے بڑے سیاست دان، فوجی لیڈر، حکمران اور اعلیٰ عہدے داروں میں کچھ ایسی خداداد صلاحیتیں اور خوبیاں ہوتی ہیں جو ہم جیسے عام انسانوں میں نہیں ہوسکتیں، یہ لوگ کسی اور ہی مٹی کے بنے ہوتے ہیں، یہ آدھے گھنٹے تک سانس روک کر سمندر میں تیر سکتے ہیں، کئی زبانوں کے ماہر ہوتے ہیں، ہزاروں کتابیں انہیں زبانی یاد ہوتی ہیں اور یہ ہر فن میں طاق ہوتے ہیں۔
ذرا بڑے ہوئے تو پتہ چلا کہ اصل میں یہ نام نہاد بڑے لوگ ہم سے بھی زیادہ نالائق ہوتے ہیں کیونکہ دنیا کو چلانے والے اگر کسی قابل ہوتے تو دنیا کا یہ حال نہ ہوتا جو آج ہے۔ اسی طرح ہمارایہ بھی خیال تھا کہ زندگی میں اچانک انقلاب آتا ہے اور کایا پلٹ جاتی ہے، ایسا چونکہ فلموں میں دکھایا جاتا تھا (ہے) اس لیے ہم نے اس بات کو بھی سچ مان لیا۔ حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ذرا سی سمجھ بوجھ آئی تو ادراک ہوا کہ زندگی میں سب کچھ خود کرنا پڑتا ہے، کوئی دوسرا آپ میں جوہر تلاش کرنے کے لیے نہیں بیٹھا، خود اپنا جوہر دنیا کو دکھانا پڑتا ہے اور اپنے زور بازو پر منوانا پڑتا ہے۔ ایک اور بات جو نہ جانے کیوں لڑکپن سے ہی ہمارے دماغ میں بیٹھ گئی وہ یہ تھی کہ کاروبار کرنے کے لیے لاکھوں روپوں کی ضرورت ہوتی ہے، اس بات کی بہت دیر میں سمجھ آئی کہ ضروری نہیں کہ آپ کے پاس سرمایہ ہو، ضروری یہ ہے کہ آپ کے پاس کاروبار کرنے کا منصوبہ ہو اور اس پر عمل کرنے کا جذبہ، سرمایہ خود بخود آ جاتا ہے۔
یہ وہ چند باتیں ہیں جوعملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد سمجھ میں آئیں، اس سے پہلے ہم کسی اور ہی دنیا میں جی رہے تھے اور یہ دنیا سکول اور کالج کی دنیا تھی جہاں صرف نصابی علم کو اہمیت دی جاتی تھی، اکتسابی علم کو نہیں۔ جواساتذہ ہمیں پڑھاتے تھے (اللہ انہیں جنت نصیب کرے) وہ بڑے قابل لوگ تھے مگر عملی زندگی میں کامیاب نہیں تھے، انہیں دیکھ کر ہمیں لگتا تھا کہ جس طرح وہ کتابی باتیں پڑھا رہے ہیں، زندگی بھی اسی طرح کتابی شکل میں ہمارے سامنے ترتیب سے کھلتی چلی جائے گی، مگر ایسا نہیں ہوا۔
جونہی ہم عملی دنیا میں آئے، ہمیں پتہ چلا کہ زندگی کی کتاب تو ہم نے پڑھی ہی نہیں اور اب جوں جوں زندگی گزر رہی ہے توں توں ایسا لگ رہا ہے کہ یہ باتیں ہمیں پہلے دن سمجھ آ جاتیں یا کبھی سمجھ نہ آتیں، اس سے کچھ فرق نہ پڑتا، زندگی جیسے تیسے کر کے گزر ہی جاتی۔
سچ پوچھیں تو آخری عمر میں یہ تمنا ہوگی کہ کاش دو چار سانسیں اور مل جائیں، چاہے غم ہی کی کیوں نہ ہوں۔ بقول غالب؎
نغمہ ہائے غم کو بھی اے دل غنیمت جانیے
بےصدا ہو جائے گا یہ سازِ ہستی ایک دن