غیرت کا مصنوعی تصور

پاکستان میں انٹرنٹ پر مقبول قندیل بلوچ کی ہلاکت کی آج تیسری برسی ہے۔ اس موقع پر ملتان کی خاتون صحافی کا مردوں کی غیرت اور عزت پر بلاگ۔

(اے ایف پی)

رسم و رواج کسی بھی معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں اور ان کی بدولت معاشرے کے مہذہب ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ تاہم ہمارے ہاں بدقسمتی سے کچھ فرسودہ روایات جیسے ونی، غیرت کے نام پر قتل، کم عمری کی شادیاں وغیرہ اپنی جڑیں اس قدر مضبوط کر چکی ہیں کہ ان سے جان چھڑوانا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ فرسودہ روایات کی زد میں ہمیشہ عورت ہی آتی ہے۔

جنوبی پنجاب میں غیرت کے نام پر خواتین کے قتل زیادہ دیکھنے میں آتے ہیں۔ جب جب کوئی عورت غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہے اور اس کی خبر اخبارات اور ٹی وی چینلز کی زینت بنتی ہے تب تب میرے ذہن میں ایک ہی سوال اٹھتا ہے کہ آخر غیرت ہے کیا؟

غیرت کی انتہا کیا ہے؟ خواتین غیرت کی کونسی حد پھلانگتی ہیں کہ انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے؟

عورت کےلیے تو اپنی اور اپنے والدین کی عزت سے بڑھ کے کوئی چیز نہیں ہوتی۔ پھر کیوں عورت ہی قتل ہوتی ہے اور غیرت کو صرف عورت سے کیوں منسوب کیا جاتا ہے؟

ہمارے مذہب اسلام نے تو عورت کو وہ تمام حقوق دیئے ہیں جو کسی اور مذہب میں عورت کو حاصل نہیں اور عورت کی ذمہ داری مرد پر عائد کی گئی ہے۔

اگر مرد اپنی تمام ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا کرے اور عورت کو وہ تمام حقوق دے جو اسلام نے دیئے ہیں تو میرا ماننا یہی ہے کہ کوئی بھی عورت نام نہاد غیرت کے نام پر قتل نہیں ہوگی۔

 بطور ایک صحافی ایسے واقعات کو دیکھ کے میری سمجھ میں صرف اتنا آیا ہے کہ غیرت بےحد مصنوعی تصور ہے اور اسے ہمیشہ عورت کو جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور کرنے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں جو عورت اپنی شادی کےلیے اپنے لائف پارٹنر کےلیے اپنی رضا مندی کا اظہار نہ کرے وہ شریف اور جو اظہار کر دے تو اسے غیرت کے دائرہ کار سے خارج کرکے قتل کر دیا جاتا ہے۔ جب کہ دیکھا جائے تو جس نکاح میں عورت کی رضامندی نہ ہو تو وہ نکاح ہی نہیں ہوتا۔ تو کیا یہ غیرت کا دوہرہ معیار نہیں۔۔۔۔۔ پھر عورت کو اسلام میں وراثتی حقوق دیئے گئے ہیں۔ اب اس میں دیکھیں کہ جو عورت اپنے باپ اور بھائیوں کےلیے وراثتی حق سے دستبردار ہو جائے وہ شرافت کی دیوی اور جو بے چاری اپنے حق کو مانگ لے وہ تو پھر بے غیرت ہوئی نہ۔ اسے غیرت کے نام پر قتل کرنا تو بنتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مرد کو اس بات کا لائسنس حاصل ہے کہ وہ ایسی باغی عورت کا قصہ ہی تمام کرے۔ قاتل کو بچانے کے لیے تو پورا خاندان اکٹھا ہوتا ہے لیکن معصوم عورت کو اس کا وراثتی حق دلوانے کےلیے کسی کی زبان سے ایک لفظ ادا نہیں ہوتا۔ وراثتی حقوق عورت کو معاشی طور پر مضبوط کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ ہم کیا کرتے ہیں کہ عورت کا دربدر ٹھوکریں کھانا، اس کا بھیک مانگنا اور یہاں تک کہ اس کی جسم فروشی کو بھی قبول کر لیتے ہیں لیکن اسے اس کا حق نہیں دلاتے۔ ایسے حالات میں پھر عورت کا غیرت کے نام پر قتل ہونا تو بنتا ہے۔۔۔۔

شوہر نشہ کرتا ہو، شراب پیتا ہو، بیوی کو گھر کا خرچہ نہ دے اور گھر میں آئے روز لڑائی جھگڑا ہو، بیوی اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کےلیے لوگوں کے گھروں میں کام کرے اور گھر کا خرچا پورا کرنے کے ساتھ ساتھ شوہر کو نشہ کرنے کےلیے پیسے بھی دے تو وہ عورت تو بڑی غیرت مند ہے اور جو نہ دے، مرد کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلائے تو وہ کیسے غیرت مند ہو سکتی ہے؟ ایسی عورت کا قتل ہونا تو بنتا ہے۔۔۔۔

 اور تو اور اگر خاتون کے ہاں صرف بچیوں کی پیدائش ہو اور وہ بیٹا جنم نہ دے تو اس میں بھی عورت قصور وار ہے اور جو عورت بیٹا نہ دے سکے وہ کیسے غیرت مند ہو سکتی ہے؟ ایسی عورت کا بھی غیرت کے نام پر قتل تو بنتا ہے۔۔۔۔

اگر ہم یہی سوچ لے کر چلتے رہے تو پھر اسی طرح خواتین قتل ہوتی رہیں گی اور غیرت کے نام پر ہونے والی تمام تر قانون سازی صرف کاغذوں تک محدود رہے گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ