تین سال قبل قتل ہونے والی ماڈل قندیل بلوچ کے ساتھ جب مفتی قوی کی سیلفیاں منظر عام پر آئی تھیں تو انہیں رویت ہلال کمیٹی کی رکنیت سے ہٹا دیا گیا تھا۔ اسی دوران قندیل بلوچ کو ملتان میں ان کے گھر میں بھائی نے مبینہ طور پر غیرت کے نام پر قتل کردیا، جس کا مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔
اس مقدمے میں مفتی قوی پر مبینہ طور پر ملوث ہونے کا الزام لگا، تاہم انہوں نے گلوکارہ سے کسی قسم کا تعلق نہ ہونے کا دعویٰ کیا اور اب گلوکارہ نادیہ ہاشمی کے ساتھ ان کی نئی سیلفیاں بھی سوشل میڈیا پر موضوع بحث بنی ہوئی ہیں۔
نادیہ ہاشمی کون ہیں؟
نادیہ ہاشمی گلوکاری اور اداکاری کے شعبہ سے گذشتہ چھ سال سے وابستہ ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں نادیہ ہاشمی نے بتایا کہ ان کا تعلق ملتان سے ہے۔ وہ چار بھائیوں کی اکلوتی بہن ہیں اور انہوں نے شوقیہ طور پر گلوکاری اور اداکاری شروع کی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ مفتی قوی کے ساتھ ان کی متعدد بار تقریبات میں ملاقات ہوچکی ہے، وہ خوش مزاج ہیں اس لیے ان کے ساتھ سیلفیاں بنائی، اس کے علاوہ ان سے کوئی تعلق نہیں۔
نادیہ ہاشمی نے کہا کہ ’قندیل بلوچ زیادہ اوپن تھیں اس لیے ان کے لیے مسائل پیدا ہوئے۔ اس معاشرے میں محدود رہنا ضروری ہے کیونکہ خواتین کو سماجی طور پر ایک حد تک ہی آزادی نصیب ہوتی ہے۔ یہاں شدت پسند اور روایتی سوچ سے مقابلہ ممکن نہیں اس لیے خود کو محفوظ بنانے کے لیے اپنی حد خود طے کرنا پڑتی ہے۔‘
نادیہ ہاشمی نے کہا کہ ’میں نے قندیل بلوچ کے واقعے سے بہت کچھ سیکھا ہے، میں اس حد تک نہیں جاؤں گی، نہ ہی اس سوچ کو چیلنج کرنا چاہتی ہوں جس نے اس کی جان لے لی۔‘
قندیل بلوچ کے مبینہ قتل کو تین سال مکمل ہونے اور نادیہ ہاشمی کے ساتھ سیلفیاں بنوانے سے متعلق موقف جاننے کے لیے جب مفتی قوی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے موقف دینے سے انکار کرتے ہوئے فون کال کاٹ دی۔
قندیل بلوچ کون تھیں؟
پنجاب کے جنوبی ضلع مظفر گڑھ میں پیدا ہونے والی فوزیہ عظیم المعروف قندیل بلوچ کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔ ان کے تین بھائی اور ایک بہن ہے۔ انہیں زمانہ طالب علمی سے ہی شوبز میں آنے کا شوق تھا لیکن ان کے گھر والے ایسا نہیں چاہتے تھے، لہٰذا والدین نے 2008 میں ایک قریبی عزیز عاشق حسین بلوچ سے 17 سال کی عمر میں ان کی شادی کر دی۔ قندیل بلوچ کی یہ شادی ایک سال ہی چل سکی، اس دوران ان کا ایک بیٹا بھی ہوا۔
والدہ کے مطابق انہوں نے اپنے خاوند کے رویے اور تنگ نظر سوچ کے باعث ان سے علیحدگی اختیار کی تو گھر والوں نے بھی اسے اچھا نہیں سمجھا، جس پر وہ لاہور آ گئیں اور مختلف کمپنیوں کے لیے ماڈلنگ شروع کر دی۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈراموں میں بھی کام کا آغاز کر دیا۔
ان کے گھر والے ان سے ناراض تھے اسی لیے انہوں نے شوبز کی دنیا میں اپنی خاندانی پہچان چھپانے کے لیے اپنا نام قندیل بلوچ رکھا۔ وہ کافی چنچل اور خوش مزاج تھیں۔ انہیں سب سے زیادہ شہرت سوشل میڈیا پر ملی جہاں مختلف ویڈیوز کے ساتھ ساتھ مشہور شخصیات کے ساتھ سیلفیاں بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کرنا ان کا شوق تھا۔
2016 میں جب مفتی قوی کے ساتھ ان کی مختلف سیلفیاں اور ویڈیوز وائرل ہوئیں تو مذہبی حلقوں میں اس معاملے پر مفتی صاحب کو کافی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور کئی علما نے ان کی رویت ہلال کمیٹی کی رکنیت ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا، یوں مفتی عبدالقوی کو قندیل سے تعلقات پر کافی مشکلات سے بھی گزرنا پڑا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قندیل بلوچ کے والدین مظفر گڑھ چھوڑ کر ملتان میں رہنے لگے۔ ان کی اپنی بیٹی سے بھی صلح ہو گئی تھی لیکن 15 جولائی 2016 کی شب ملتان کے علاقے مظفر آباد میں جب قندیل بلوچ اپنے گھر میں سوئی ہوئی تھیں تو انہیں چھریوں کے وار سے قتل کر دیا گیا۔ یوں آزادی سے جینے کی خواہش رکھنے والی قندیل بلوچ 26 سال کی عمر میں موت کے منھ میں چلی گئیں۔
قندیل کے قتل کے الزام میں پولیس نے ان کے بھائی وسیم عظیم کو گرفتار کیا، جس نے دوران تفتیش اپنی بہن کو قتل کرنے کا اعتراف کرلیا۔ پولیس کے مطابق ملزم نے اپنے بیان میں بتایا کہ اس نے اپنی بہن کو بدنامی پر شرمندگی کے باعث غیرت میں آ کر قتل کیا اور اس کا بھائی عارف عظیم سعودی عرب سے اس کے ساتھ رابطے میں تھا جبکہ اس معاملے میں ان کے کزن بھی اعتماد میں لیے گئے تھے۔
ملزم نے بیان دیا کہ قندیل بلوچ نے ایک عالم دین مفتی عبدالقوی کو بھی اپنے ساتھ سیلفیاں بنا کر بدنام کیا۔ اسی بیان پر پولیس نے مفتی عبدالقوی کو بھی شامل تفتیش کر رکھا ہے۔
قندیل بلوچ کی والدہ نور بی بی کا کہنا ہے کہ میرے بیٹے وسیم اور عارف بے گناہ ہیں، مفتی عبدالقوی نے اس قتل میں میرے بیٹوں کو پھنسایا ہے، لیکن پولیس ان کے بااثر ہونے کی وجہ سے انہیں گرفتار نہیں کر پا رہی۔
ملتان کے عدالتی رپورٹر محمد وسیم کے مطابق ملتان کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سردار اقبال ڈوگر کی عدالت میں قندیل بلوچ قتل کیس کی سماعت جاری ہے اور اب تک اس کیس میں مفتی عبدالقوی سمیت 70 سے زائد گواہان کی شہادتیں قلمبند کی جاچکی ہیں۔ قندیل بلوچ کیس میں پولیس ہی مدعی ہے کیونکہ ان کی والدہ اور رشتہ دار ان کے قتل میں ملوث بھائیوں اور دیگر رشتہ دار ملزمان کے خلاف کارروائی نہیں چاہتے۔
سوشل میڈیا اور سول سوسائٹی مہم
قندیل بلوچ کے قتل پر اُن سے اظہارِ یکجہتی اور غیرت کے نام پر قتل جیسے فعل کی مذمت کے لیے ہزاروں مردوں، خواتین اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے اُس وقت احتجاجی مظاہرے بھی کیے تھے، جن کا کہنا ہے کہ خواتین کو مرضی سے جینے کی آزادی دینے کی بجائے غلامی میں رکھنے کی مجموعی معاشرتی سوچ کو ختم کرنے کے لیے مسلسل جدوجہد اور قانونی اصلاحات ضروری ہیں۔