یوکرین کا روس کو سزا دینے، ویٹو کا حق ختم کرنے کا مطالبہ

یوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں عالمی رہنماؤں پر روس کو سزا دینے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بین الاقوامی اداروں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روس کا ویٹو کا حق ختم کردیں۔

یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی 21 ستمبر 2022 کو نیویارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77ویں اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
 

یوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں عالمی رہنماؤں پر روس کو سزا دینے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بین الاقوامی اداروں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روس کا ویٹو کا حق ختم کردیں۔

دوسری جانب یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے روس پر نئی پابندیوں کی تیاری اور یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی میں اضافے پر اتفاق کیا ہے۔

خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق روسی صدر ولادی میر پوتن کی جانب سے یوکرین کے خلاف اپنی جنگ کو آگے بڑھانے کے لیے ریزرو فوجیوں کو جزوی طور پر متحرک کرنے کے اعلان کے چند گھنٹوں بعد زیلنسکی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بذریعہ ویڈیو خطاب کیا۔

اگرچہ زیلنسکی نے ابھی تک روس کی اس پیشرفت پر کوئی بات نہیں کی، لیکن انہوں نے کہا کہ ان کی افواج ’یوکرین کے پرچم کو پورے خطے میں دوبارہ لہرا سکتی ہیں۔ ہم اسے ہتھیاروں کی طاقت سے کر سکتے ہیں، لیکن ہمیں وقت درکار ہے۔‘

انہوں نے روس کے لیے سزا کا مطالبہ کیا جس میں ماسکو کو بین الاقوامی اداروں میں ووٹ ڈالنے اور سلامتی کونسل میں ویٹو کے استعمال سے روکنا بھی شامل ہے۔

زیلنسکی نے کہا: ’حملہ آور بین الاقوامی تنظیموں کی فیصلہ سازی میں ایک فریق ہے، اسے ان سے باہر رہنا چاہیے۔‘

روس نے ابھی تک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں میں تقریر نہیں کی، تاہم ولادی میر پوتن نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی مسلح افواج کو اس لیے یوکرین بھیجا کہ ان کے ملک کی سلامتی کو کئیف میں ایک دشمن حکومت سے خطرات لاحق ہیں۔ ’یوکرین میں رہنے والے روسیوں کو آزاد کرانے کے لیے، خاص طور پر مشرقی دونبیس کے علاقے، جسے وہ یوکرین کی حکومت کے جبر کے طور پر دیکھتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

روس کی جانب سے شروع کی گئی یہ جنگ عالمی رہنماؤں کے اس اجتماع پر چھائی ہوئی ہے، جو یوکرین پر حملے کے تقریباً سات ماہ بعد ہوا ہے۔

ملکی حالات کی وجہ سے یوکرینی صدر اگست میں ہونے والے اقوام متحدہ کے اجلاس میں بھی شریک نہیں ہوئے تھے اور انہوں نے ویڈیو کے ذریعے بات کی تھی۔

اقوام متحدہ کے سب سے طاقتور ادارے، سلامتی کونسل کے مستقل رکن کے طور پر، روس یوکرین پر حملہ شروع ہونے کے چند دن بعد اسے روکنے کے مطالبے کو ویٹو کرنے میں کامیاب رہا، لیکن یہ اقدام متاثر ہونے والے متعدد دیگر ممالک کی جانب سے جنرل اسمبلی کے اس بڑے اجلاس میں کارروائی کا سبب بنا، جہاں پیش کی جانے والی قراردادوں کا کوئی بھی ملک پابند نہیں ہے، لیکن ان قراردادوں کو ویٹو بھی نہیں کیا جا سکتا۔

جنرل اسمبلی نے مارچ میں یوکرین کے خلاف روس کی جارحیت کی مذمت، فوری طور پر جنگ بندی اور تمام روسی افواج کے انخلا کا مطالبہ اور لاکھوں شہریوں کے تحفظ پر زور دینے کے لیے بھاری اکثریت سے ووٹ دیا تھا جبکہ اگلے مہینے اہم ارکان نے روس کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے معطل کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔

بدھ کو پوتن کی جانب سے جزوی طور پر متحرک ہونے کے بارے میں اعلان کی تفصیلات بہت کم تھیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ تین لاکھ ریزرو فوجیوں کو طلب کیا جا سکتا ہے، لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد روس میں اس طرح کے پہلے اعلان سے روس کے اندر بھی اضطراب پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔

یورپی یونین کا روس پر نئی پابندیوں پر اتفاق

یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے روس پر نئی پابندیوں کی تیاری اور یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی میں اضافے پر اتفاق کیا ہے۔

خبر رساں روئٹرز کے مطابق یورپی یونین کے وزرا کا اگلا باضابطہ اجلاس اکتوبر کے وسط میں ہوگا۔ جب پابندیوں کے پیکج کو باقاعدہ شکل دی جائے گی۔

وزرا نے یوکرین کو ہتھیاروں کی سپلائی بڑھانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔

تاہم یورپی یونین کے سربراہ جوزپ بوریل نے اس حوالے سے تفصیلات نہیں بتائیں کہ روس پر پابندیاں یا یوکرین کی فوجی مدد کس قسم کی ہوگی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا