شمالی وزیرستان: دفعہ 144 کے ہٹنے کے بعد انتخابی مہم عروج پر

وانا بازار کو پوسٹروں اور جھنڈوں سے دلہن کی طرح سجادیا گیا ہے۔ کسی بھی اُمیدوار کے ورکر کو جہاں بھی خالی جگہ ملتی ہے وہ وہاں پر اپنا جھنڈا اور پوسٹر گاڑ دیتا ہے۔

 جنوبی وزیرستان کے دو حلقوں میں پاکستان پیپلز  پارٹی، پاکستان تحریک انصاف،جماعت اسلامی،جمعیت علما اسلام (ف) اورعوامی نیشنل پارٹی اپنے اپنے انتخابی نشانات پر انتخابی مہم چلا رہے ہیں ،جبکہ آزاد اُمیدواروں نےبھی میدان کوگرم کر رکھا ہے (دلاور خان وزیر)

جنوبی وزیرستان میں دفعہ 144 کے خاتمے کے بعد دو صوبائی حلقوں کے انتخابات کے لیے اُمیدواروں کے جلسے جاری ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کے اُمیدواروں کے علاوہ آزاد اُمیدواروں نے بھی وانا بازار کو پوسٹروں اور جھنڈوں سے دلہن کی طرح سجادیا ہے۔ کسی بھی اُمیدوار کے ورکر کو جہاں بھی خالی جگہ ملتی ہے وہ وہاں پر اپنا جھنڈا اور پوسٹر گاڑ دیتا ہے۔ خواہ وہ شخص جس کی دکان یا کاروباری مراکز پر وہ کارکن جھنڈا لگا رہا ہو وہ اسی کا ووٹر ہو یا نہیں لیکن وہ اپنے اُمیدواروں کے زیادہ سے زیادہ جھنڈے لگانے کی کوشش ضرور کرتے ہیں ۔ 

 جنوبی وزیرستان کے دو حلقوں میں پاکستان پیپلز  پارٹی، پاکستان تحریک انصاف،جماعت اسلامی،جمعیت علما اسلام (ف) اورعوامی نیشنل پارٹی اپنے اپنے انتخابی نشانات پر انتخابی مہم چلا رہے ہیں ،جبکہ آزاد اُمیدواروں نے بھی میدان کوگرم کر رکھا ہے۔ مگر اس بار پہلے کی نسبت عام شہریوں کی دلچسپی جلسے اور جلسوں میں بہت کم نظر آرہی ہے۔

وانا میں ایک مقامی شخصیت امیر خاتم نے کہا کہ لوگ انتخابی مہم میں زیادہ جوش و خرم اس لیے نظر نہیں آرہی ہےکہ کیونکہ ان میں اب شعور آگیا ہے اور وہ کسی بھی اُمیدوار کے جلسے اور جلوسوں میں حصہ لینے کی بجائے خاموشی کے ساتھ اپنے پسند کے اُمیدوار کو ووٹ دینگے۔

 انہوں نے کہا کہ لوگ پارٹی کو نہیں بلکہ شخصیت کو زیادہ ترجیح دے رہے ہیں۔ جو اُمیدوار قوم کے معیار پر پورا اُترے گا وہ کامیاب ہوگا۔ امیر خاتم کے مطابق ایک دوسرا پہلو یہ بھی بہت اہم ہے جس میں اس اُمیدوار کو زیادہ ووٹ پڑنے کا قوی امکان ہے جس کا قبیلہ طاقتور ہوکیونکہ قبائلی اضلاع میں اب بھی قبیلے کا نعرہ بہت زیادہ مضبوط ہے۔

محمد شاکر نے بتایا کہ لوگ موجودہ حکومت سے مایوس ہوچکے ہیں۔ ’ پہلے تو عام شہری ایک ایم این اے سے یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ ان کے مسائل ان کےگھر پر حل کریں گے لیکن علاقے سے کامیاب ہونے  والے اُمیدواروں نے عوامی مسائل کی بجائے اپنے لیے مال بنانے پر زیادہ ترجی دی تھی۔اس لیے لوگ انتخابات میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہے ہیں۔البتہ ووٹ ڈالنے کے لیے لوگ نکلیں گے اور ٹرن آؤٹ زیادہ ہوگا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امیر خان توجئے خیل نے بتایا کہ مقابلہ بہت سخت ہوگا معمولی اکثریت سے کوئی بھی اُمیدوار کامیاب ہوسکتا ہے۔ انتخابی مہم سے معلوم ہورہا ہے کہ لوگ سیاسی پارٹیوں پر اتنا توجہ نہیں دے رہے ہیں جتنا کہ اپنے قبیلے کے اُمیدوار وں کو کیونکہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے دو ناراض اُمیدوار بھی میدان میں کود پڑے ہیں۔ اسی طرح پیپلز پارٹی،آزاد امیدوار عارف وزیر اور تحریک انصاف کے ناراض اُمیدوار زبیر خان یہ تینوں پی ٹی ایم کے کارڈ کو استعمال کررہے ہیں جس کی وجہ سے لوگ متذبذب ہیں۔

درجنوں لوگوں کے خیال میں وہ اُمیدوار کامیاب ہوگا جو فوج کو پسند ہوگا اور لوگوں کے ووٹ کی کوئی اہمیت نہیں مگر بہت ساروں کے خیال میں جس کو زیادہ ووٹ پڑیں گے وہ کامیاب ہوں گے۔ فوج صرف اُنیس بیس کا فرق کرسکتی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پختون تحفظ موومنٹ کا کارڈ استعمال کرنے والے اُمیدواروں میں سے کسی نے بھی فوج کے خلاف زبان استعمال نہیں کی ہے اور نہ ہی اپنی تقریروں میں فوج کا نام لے رہے ہیں۔البتہ علی وزیر کی رہائی کا مطالبہ ضرور کرتے چلے آرہے ہیں۔

عارف وزیر جو علی وزیر کے چچاذادہ بھائی ہیں نے اپنے جلسوں میں اپنے حامیوں کو فوج کے خلاف نعرے لگانے سے منع کیا ہےاور خود بھی جلسوں میں فوج کا نام تک نہیں لے رہے ہیں۔ وانا بازار میں ان کے جلسے میں مجھے بھی جانے کا موقع ملا تو ان کی تقریر کو شروع سے آخر تک سُن لیا جس میں انہوں نے علی وزیر کی جیل میں مشکلات اور گرفتاری کے دوران ان کو مارنے پیٹنے کی ایک دستان سنائی لیکن انہوں نے فوج پر تنقید کرنے سے گریز کیا۔اس موقع پر انہوں نے کہا کہ اگر لوگوں نے ان کو کامیاب بنایا تو وہ علاقے کی تعلیم و ترقی پر توجہ دیں گے۔

مقامی اُمیدواروں کے علاوہ مرکزی رہنما بھی اپنے پارٹی کے اُمیدواروں کی مہم میں شامل ہوتے نظر آرہے ہیں عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی نائب صدر محسن شاہ نے وانا کے محتلف علاقوں میں اپنے امیدوار تاج محمد کے ساتھ کئی جلسوں میں حصہ لیا اور اس طرح جمعیت علما (ف) کے ایم این اے مولانا عبدالشکور نے بھی وانا کے مقام پرایک جلسے میں حصہ لیا تھا۔

مختلف پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں نے شکایت کی ہے کہ پولنگ سٹیشنوں میں باہر اور اندر فوج کی موجودگی ایک غیر جمہوری عمل ہےاور  وہ اس کو تسلیم نہیں کرتے۔ سابقہ ڈپٹی سپیکر قومی فیصل کریم کنڈی نے انڈیپنڈنٹ اردوکو بتایا کہ فوج کو صرف سکیورٹی کے لیے پولنگ سٹیشن سے باہر موجود ہونا چائیے اور پولنگ سٹیشن کے اندر فوج کی موجودگی ووٹ کے صحیح استعمال پر اثرانداز ہوگی۔ا نہوں نے کہا کہ وہ پولنگ سٹیشن کے اندر فوج کی موجودگی کو تسلیم نہیں کریں گے۔

سیکٹر کمانڈر ساوتھ بریگیڈئیر امیتاز حسین نے صحافیوں کو بتایا کہ پولنگ کے دن فوج صرف امن آمان کی صوتحال برقرار رکھنے کے لیے موجود ہوگی تاکہ شہری اپنا حق رائے دہی آزادانہ طور پر استعمال کرسکیں۔

مقابلہ بہت سخت ہوگا دیکھتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں سیاسی پارٹی کے اُمیدوار میدان مارتے ہیں یا بازی آزاد اُمیدوار بازی لے جاتے ہیں، مگر اُمیدیں تمام اُمیدواروں کی یکساں ہیں کہ وہ ضرور جیتیں گے۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان