امریکہ ایک انچ سالانہ کی رفتار سے ایشیا کی طرف بڑھ رہا ہے

بحر الکاہل سکڑ رہا ہے جس سے مستقبل میں ایشیا، جنوبی اور شمالی امریکہ اور آسٹریلیا مل کر ایک عظیم براعظم بنا لیں گے۔

سائنس دانوں کے مطابق غالب امکان ہے کہ 30 کروڑ برس سے پہلے پہلے بحر الکاہل بند ہو جائے گا (کری ایٹو کامنز/انڈی گرافکس)

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ بحرالکاہل سکڑتا جا رہا ہے جس سے ایک نیا عظیم براعظم (سپر کانٹیننٹ) وجود میں آ جائے گا۔

آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے مطابق بحرالکاہل سست رفتار سے مگر مستقل ایک انچ سالانہ کی ممکنہ رفتار سے سکڑ رہا ہے۔ اس سکڑاؤ کی وجہ سے وہ ٹیکٹونک پلیٹس جن پر شمالی اور جنوبی امریکہ کے براعظم ٹکے ہوئے ہیں، مغرب کی طرف کھسک رہے ہیں۔

آج سے 20 سے 30 کروڑ سال بعد ایشیا اور امریکہ آپس میں ٹکرا جائیں گے جس سے ایک نیا عظیم براعظم وجود میں آئے گا، جسے ’امیشیا‘ (Amasia) کا نام دیا گیا ہے۔

آسٹریلوی شہر پرتھ میں واقع کرٹن یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے سپرکمپیوٹر پر سمولیشن چلا کر اس نئے عظیم براعظم کے بننے کے عمل کا حساب لگایا۔

انہوں نے سائنسی جریدے نیشنل سائنس ریویو میں لکھا، ’دنیا کے معلوم عظیم براعظموں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بےحد مختلف طریقوں سے وجود میں آتے ہیں، اور اس کے متضاد اجزا سکڑاؤ اور پھیلاؤ ہیں۔

’سکڑاؤ میں پچھلے عظیم براعظم سے ٹوٹنے سے بننے والے اندرونی سمندر تنگ ہونے لگتے ہیں، جب کہ پھیلاؤ میں گذشتہ بیرونی عظیم سمندر بند ہونے لگتا ہے۔‘  

انہوں نے مزید لکھا، ’تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ عظیم براعظم بننے کے لیے اس چکر کے پیچھے موجود متضاد رویوں کی وجہ کیا ہے۔ اس چکر میں کھسکنے والے ٹیکٹونک پلیٹس اور زمین کے مینٹل کے درمیان پہلے درجے کا تعامل عمل میں آتا ہے۔ یہاں ہم نے اس سوال کا جواب کرنے کے لیے فور ڈی جیوڈائنیمک ماڈلنگ کے ذریعے حاصل کیا ہے جس میں ریئلسٹک ٹیکٹونک سیٹ اپ استعمال کیا گیا ہے۔‘

2012 میں جریدے ’سائنس‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ارضیاتی ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ ’گذشتہ تقریباً دو ارب برسوں میں تین عظیم براعظم وجود میں آ چکے ہیں۔‘

ان میں سے قدیم ترین عظیم براعظم، جسے ’نونا‘ (Nuna) کہا جاتا ہے، تقریباً ایک ارب 80 کروڑ سال پہلے بنا تھا، ۔ اس کے بعد ’روڈینیا‘ (Rodinia) بنا جو اور ایک ارب سال کے لگ بھگ قائم رہا۔ سب سے آخری عظیم براعظم پینجیا (Pangaea) تھا جو 30 کروڑ سال پہلے تشکیل ہوا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تحقیق کے مرکزی مصنف اور کرٹن یونیورسٹی کے ارتھ ڈائنیمک ریسرچ گروپ سے تعلق رکھنے والے چوان ہوانگ نے کہا، ’پچھلے دو ارب سال سے زمین کے براعظم ہر 60 کروڑ سال بعد آپس میں ٹکراتے رہے ہیں، جسے عظیم براعظم کا چکر کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ حالیہ براعظم اگلے دس سے 20 کروڑ سال میں آپس میں ملنے والے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس نئے عظیم براعظم کو امیشیا کا نام دیا گیا ہے کیوں کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بحرالکاہل سکڑ کر بند ہو جائے گا (بحر ہند اور بحرِ اوقیانوس کی نسبت) اور امریکہ ایشیا کے ساتھ ٹکرا جائے گا۔ زمین پر ہونے والے اس اہم عمل میں آسٹریلیا بھی حصہ لے گا، جو پہلے ایشیا سے ٹکرائے گا اور پھر جب بحر الکاہل بند ہو جائے گا تو آسٹریلیا امریکہ اور ایشیا کے ساتھ مل جائے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ سپر کمپیوٹر کی مدد سے زمین کی ٹیکٹونک پلیٹس کے ارتقا کی سمولیشن سے ’ہم یہ دکھا پائے ہیں کہ غالب امکان ہے کہ 30 کروڑ برس سے پہلے پہلے بحر الکاہل بند ہو جائے گا، جس سے امیشیا وجود میں آئے گا۔ اس سے ماضی کے بعض سائنسی نظریات کی تردید ہوتی ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق