آسٹریلیا میں زندہ شخص کو مردہ خانے بھجوانے پر تحقیقات شروع

ڈاکٹر کے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ پانچ ستمبر کو مردہ خانے بھیجے جانے والے مریض کی موت حقیقت میں چھ ستمبر کو واقع ہوئی۔

شدید بیمار کیون ریڈ نامی شخص جنہیں دیکھ بھال کی ضرورت تھی، انہیں پانچ ستمبر کو روکنگھم جنرل ہسپتال میں مردہ سمجھ لیا گیا)اے ایف پی)

آسٹریلیا میں نرسوں کی طرف سے زندہ  شخص کو باڈی بیگ میں بند کر کے مبینہ طور پر مردہ خانے بھجوانے کے واقعے کے بعد ہسپتال کے خلاف تحقیقات کی جا رہی ہے۔

شدید بیمار کیون ریڈ نامی شخص جنہیں دیکھ بھال کی ضرورت تھی، انہیں پانچ ستمبر کو روکنگھم جنرل ہسپتال میں مردہ سمجھ لیا گیا۔ لیکن ایک ڈاکٹر کے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ مریض کی موت حقیقت میں چھ ستمبر کو واقع ہوئی حالاں کہ انہیں اس سے پہلے ہی مردہ خانے بھیج دیا گیا تھا۔

اطلاعات کے مطابق سنگین غلطی کا احساس اس وقت ہوا جب ڈاکٹر نے باڈی بیگ کو کھولا اور مریض کے گاؤن پر تازہ خون پایا اور دیکھا کہ ان کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں۔

پانچ ستمبر کو نرسوں کا خیال تھا کہ 55 سالہ ریڈ کی موت واقع ہو چکی ہے اور انہوں نے مریض کے گھر والوں کو مطلع کرنے کے بعد انہیں مردہ خانے بھیج دیا۔ مردہ خانے بھیجے جانے سے پہلے ڈاکٹر نے مریض کی موت کی تصدیق نہیں کی تھی جس کی وجہ ہسپتال نے عملے کی کمی کو قرار دیا۔

ہسپتال کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس معاملے میں ابہام موجود تھا کیوں کہ دو مریضوں کی بہت مختصر عرصے میں موت ہوئی تھی۔ اگلے روز ڈاکٹر ریڈ کی موت کی تصدیق کے لیے گئے۔

 اس سے پہلے انسانی اعضا عطیہ کرنے والی ایک تنظیم نے ان کے اعضا لینے کی درخواست کی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جونہی ہی ڈاکٹر نے تازہ خون دیکھا اور یہ کہ مریض کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور مبینہ طور پر لاش کے ہاتھ اور پیر میں حرکت ہوئی جس سے خطرے کی گھنٹی بجی کہ جب ریڈ کو باڈی بیگ میں منتقل کیا گیا تو شاید وہ زندہ تھے۔

ڈاکٹر نے ریاستی کورونر کو مطلع کیا جب مبینہ طور پر ہسپتال کے سینئر عملے کے ذریعہ مسٹر ریڈ کی موت کی تاریخ کو بیک ڈیٹ کرنے کو کہا گیا۔ ویسٹرن آسٹریلیا کی کورونر کورٹ کی طرف سے تیزی سے تحقیقات شروع کی گئیں۔

ہسپتال کے سینیئر عملے نے مبینہ طور پر ڈاکٹر کو ریڈ کی موت کی تاریخ ایک قبل کی درج کرنے کی ہدایت کی جس پر ڈاکٹر نے کسی کی غیر قدرتی موت کی چھان بین کرنے والے سرکاری عہدے دار کو مطلع کر دیا۔ جلد ہی مغربی آسٹریلیا کی کورونر کورٹ نے معاملے کی تحقیقات شروع کر دی۔

بزنس نیوز کے مطابق کورونر کو بھیجی گئی رپورٹ میں ڈاکٹر نے لکھا ہے کہ ’میرا ماننا ہے کہ جِلد کے زخم سے نکلنے والا تازہ خون، بازو کی حالت اور آنکھوں کی علامات اس شخص سے نہیں ملتیں جو مردہ خانے آمد کے موقعے پر مر چکا ہو۔‘

ساؤتھ میٹروپولیٹن ہیلتھ سروس کے چیف ایگزیکٹیو پال فورڈن نے کہا کہ نرسوں کی جانب سے موت کے بعد مریض کا خاندان کچھ دیر تک ان کے بستر کے پاس موجود رہا۔

انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ محکمہ صحت کے عہدے داروں کی طرف سے کی جانے والی تحقیقات میں ’مریض کی موت کے بعد کے قواعد و ضوابط‘ کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔‘

 انہوں نے زور دیا کہ اس بات کی تحقیقات نہیں کی جا رہی کہ آیا مریض زندہ تھے یا نہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا