’سعودی عرب تیل یا متعلق فیصلوں کو سیاست کی نذر نہیں کرتا‘

سعودی وزیر کا کہنا ہے کہ ’سعودی عرب تیل اور تیل کے بارے میں فیصلوں کو سیاسی رنگ نہیں دیتا۔ تیل کوئی ہتھیار نہیں ہے۔ ہم تیل کو سامان تجارت کے طور پر دیکھتے ہیں۔‘

سعودی عرب کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ عادل الجبیر نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے کہ ان کا ملک امریکہ میں پیٹرول کی زیادہ قیمتوں کا ذمہ دار ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ امریکہ میں تیل صاف کرنے کی ناکافی سہولت کی وجہ سے پیٹرول مہنگا ہوا۔

عرب نیوز کے مطابق فوکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ’سعودی عرب تیل اور تیل کے بارے میں فیصلوں کو سیاست کی نذر نہیں کرتا۔ تیل کوئی ہتھیار نہیں ہے۔ ہم تیل کو سامان تجارت کے طور پر دیکھتے ہیں اور ہم بالکل دیکھ رہے ہیں کہ یہ وقت عالمی معیشت کے لیے اہم ہے جس میں ہمارا بڑا حصہ ہے۔‘

عادل الجبیر نے فوکس نیوز کو بتایا: ’یہ خیال کہ سعودی عرب ایسا کرے گا جس سے امریکہ کو نقصان پہنچے یا اس کا کسی بھی طرح سے سیاسی طور پر ملوث ہونا قطعی طور پر درست نہیں ہے۔۔۔امریکہ میں آپ کی قیمتیں زیادہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے پاس تیل صاف کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہے جو 20 سال سے زیادہ عرصے سے موجود ہے۔ آپ نے کئی دہائیوں میں ریفائنریاں قائم نہیں کیں۔‘

امریکہ میں پیٹرول کی قیمتیں رواں سال کے اوائل میں زیادہ طلب اور عالمی سطح پر ریفائننگ سپلائی کم ہونے کی وجہ سے تیزی سے بڑھیں لیکن جون میں عروج پر پہنچنے کے بعد گرنا شروع ہو گئیں۔ ستمبر کے وسط میں قومی اوسط 3.67 ڈالر فی گیلن کی کم سطح سے اب 20 سینٹ بڑھ گئی ہے۔ ایسا زیادہ تر مغربی وسطی ریاستوں اور مغربی ریاستوں میں خام تیل کی رسد میں اضافے کے نتیجے میں ہوا۔

امریکی آئل ریفائنریاں اکتوبر کے اوائل تک اپنی صلاحیت کا 91 فیصد استعمال کر رہی تھیں لیکن صنعت کے تخمینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2020 کے شروع میں کرونا وائرس کی وجہ سے طلب ہونے کے بعد سے تیل صاف کرنے کی مجموعی امریکی صلاحیت میں کمی آئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عادل الجبیر نے وضاحت کی ہے کہ ’وسطی مغربی ریاستوں میں آپ کے پاس کئی ریفائنریاں ہیں جو بند کر دی گئیں۔ یہ تیل ریفائن کرنے کی صلاحیت کی کمی کا نتیجہ ہے کہ آپ کے پاس پیٹرول کی قلت ہے اور پیٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کا خام تیل کی طلب اور رسد کے بنیادی اصولوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ تیل پیداوار کرنے والی تنظیم اوپیک کے رکن ممالک اور روس نے’صارفین اور پیدا کرنے والوں کے مفاد میں تیل کی مارکیٹوں میں استحکام یقینی بنانے کا پختہ عزم کر رکھا ہے۔‘

انہوں نے نومبر سے تیل کی پیداوار سے متعلق اوپیک کے فیصلوں پر تنقید جن میں امریکہ کی تنقید خاص طور پر شامل ہے، کے بعد کہا کہ ’گذشتہ ایک سال میں جب ہم نے قلت دیکھی تو ہم نے اپنی مجموعی پیداوار میں بتدریج اضافہ کیا۔ اب ہم، ہمارا مطلب ہے کہ اوپیک پلس میں شامل 22 ممالک دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں قلت نظر آرہی ہے، ہم جغرافیائی سیاست کے اعتبار سے مخالف سمت میں چلنے والی ہوا دیکھ رہے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پیشگی کام کریں گے کہ ہمیں توانائی کی منڈیوں کی تباہی کا سامنا نہ کرنا پڑے جو نہ صرف تیل پیدا کرنے والے ملکوں بلکہ صارفین اور عالمی معیشت کے لیے بھی نقصان دہ ہو گا۔‘

عادل الجبیر نے ان قیاس آرائیوں کو بھی مسترد کر دیا کہ اوپیک پلس کی طرف سے پیداوار میں کمی کی وجہ سے تیل کی قیمتیں بڑھیں گی۔

’یہ فیصلہ متفقہ تھا۔ ہم نے دیکھا کہ آگے چل کر خام تیل کی طلب کم ہو رہی ہے اور بہت سے عوامل تھے جو طلب و رسد کے بنیادی اصولوں پر اثرانداز ہونے تھے اور ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے تھے کہ ہم قبل از وقت تیار یا فعال ہوں اور یہ کہ ہم توانائی کی مارکیٹوں کی اس ممکنہ تباہی کو روکیں جس کا صارفین یا تیل پیدا کرنے والوں کو فائدہ نہیں تھا۔‘

’ہم صورت حال پر مسلسل نظر رکھیں گے جیسا کہ ہم نے گذشتہ ایک سال کے دوران کیا اور ہم اس بات کا تعین کریں گے کہ مارکیٹ کو کس چیز کی ضرورت ہے اور ہم اس کے مطابق فیصلے کریں گے جیسا کہ ہم نے نہ صرف گذشتہ سال بلکہ گذشتہ دہائیوں میں کیا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا