وفاق اور پنجاب میں موثر اپوزیشن کا فقدان کیوں؟

تجزیہ کاروں کے مطابق مضبوط اپوزیشن ہی ایوانوں میں عوامی مفادات سے متعلق قانون سازی اور فیصلوں پر حکومتی اقدامات کے لیے چیلنج ہوتی ہے۔

وفاق کی طرح پنجاب میں بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ نہ وفاقی حکومت کو ایوان میں اپوزیشن کی مذاحمت یا تنقید کا سامنا ہے اور نہ ہی پنجاب کے ایوان میں کوئی شور شرابا ہے(تصویر: بشکریہ ریڈیو پاکستان)

پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ویسے تو سیاسی ہلچل بڑھتی جارہی ہے مگر ایوانوں میں خاموشی دکھائی دیتی ہے۔

ایوان سے باہر تحریک انصاف نے ن لیگ کی وفاقی حکومت کو ٹف ٹائم دے رکھا ہے اور پنجاب میں بھی مسلم لیگ ن نے پرویزالہی حکومت کی تبدیلی کے لیے کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔

اس کے برعکس ایوان کے اندر پر امن انداز سے اجلاس چل رہے ہیں یہاں تک کہ جس طرح پارلیمنٹ میں اپوزیشن بے اثر ہے، اسی طرح پنجاب میں بھی اپوزیشن لیڈر کا نوٹیفکیشن تک جاری نہیں ہوسکا۔

حمزہ شہباز بھی سپریم کورٹ کے حکم پروزارت اعلی سے ہٹنے کے بعد پنجاب کے ایوان میں نہیں آئے۔ تاہم ن لیگی رہنما عظمی بخاری کے بقول ان کو اپوزیشن لیڈر قرار دینے کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کی درخواست سپیکر کو شروع سے ہی دے رکھی ہے۔

لہذا وفاق کی طرح پنجاب میں بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ نہ وفاقی حکومت کو ایوان میں اپوزیشن کی مذاحمت یا تنقید کا سامنا ہے اور نہ ہی پنجاب کے ایوان میں کوئی شور شرابا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق مضبوط اپوزیشن ہی ایوانوں میں عوامی مفادات سے متعلق قانون سازی اور فیصلوں پر حکومتی اقدامات کے لیے چیلنج ہوتی ہے۔

’بے قاعدہ‘ اپوزیشن ہونے سے دونوں حکومتیں مرضی کے مطابق قانون سازی اور ایوان چلا رہی ہیں جس سے یک طرفہ کارروائی دیکھنے میں آرہی ہے۔

ایوانوں میں کمزور اپوزیشن کیوں؟

سینئیر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت وفاق اور پنجاب میں باقائدہ کی بجائے بے قائدہ اپوزیشن موجود ہے۔ پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی استعفے دے کر ایوان میں اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کی بجائے سڑکوں پر حکومت مخالف جدوجہد کررہی ہے۔‘

مجیب الرحمن شامی کے مطابق ’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تحریک انصاف وفاقی حکومت جانے کے بعد عوامی مسائل پر ایوان میں آواز اٹھانے کی بجائے جلسے جلوسوں میں سیاسی شہرت حاصل کرنے پر ترجیح دے رہی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مجیب الرحمن شامی کا مزید کہنا تھا کہ ’وفاق میں پی ٹی آئی کے استعفوں سے جو لولی لنگڑی برائے نام اپوزیشن تشکیل پائی وہ تو خود حکومت کی اتحادی جماعتوں کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے کیوں کہ ان میں تحریک انصاف کے منحرف اراکین شامل ہیں جنہوں نے استعفے دینے کی بجائے ایوان میں کردار ادا کرنے کو ترجیح دی۔ اس لیے جب علامتی اپوزیشن ہوگی تو وہ حکومتی پالیسیوں پر تنقید یا عوامی مفادات سے متعلق قانون سازی میں عوام کی حقیقی نمائندگی کیسے کر سکتی ہے؟‘

ان کے خیال میں ’ایسی فرینڈلی اپوزیشن حکومت کے لیے بہت فائدہ مند ہوتی ہے مگر عوامی مشکلات پر آواز اٹھانے کے لیےبے اثر ہوتی ہے۔‘

تجزیہ کار تنزیلہ مظہر نے کہا کہ ’مضبوط جمہوری نظام مکمل ہی تب ہوتا ہے جب ایوانوں میں موثر اپوزیشن موجود ہولیکن جس طرح تحریک انصاف نے وفاق میں تحریک عدم اعتماد کے بعد ایوان سے استعفے دیے اس سے اندازہ ہوتا ہے وہ عوام کی آواز ایوانوں میں بننے کی بجائے فوری انتخاب کے ذریعے حکومت لینے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ایوانوں کے باہر تو مزدور، سماجی یا دیگر تنظیمیں بھی حکومتی پالیسیوں پر احتجاج یا جلسے کرتی ہیں۔ اصل اپوزیشن کا کردار تو کسی بھی سیاسی جماعت کو نشستوں کے ساتھ ایوان میں ادا کرنا ہوتا ہے۔‘

تنزیلہ کے بقول ’جس طرح کی ملکی صورت حال ہے اس میں موثر اپوزیشن کا کردار پہلے سے زیادہ اہم ہے کیوں کہ اپوزیشن اراکین کمیٹیوں میں شامل ہوتے ہیں جہاں حکومتی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ کئی اہم تعیناتیوں میں بیلنس برقرار رکھنے کے لیے حکومت کو اپوزیشن کی مشاورت سے فیصلہ کرنا ہوتا ہے اس لیے پارلیمانی نظام میں اپوزیشن کا کردار سیاسی جماعتوں کی سنجیدگی ثابت کرتا ہے۔‘

مہنگائی کے طوفان میں اپوزیشن کی اہمیت

پی ٹی آئی رہنما یاور بخاری کے بقول ’تحریک انصاف نے اسی لیے پارلیمنٹ سے استعفے دیے کہ یہ حکومت سازش کےذریعے جمہوری حکومت ہٹا کر بنائی گئی ہے ان سے مسائل حل ہونے کی بجائے بڑھیں گے لہذا فریش مینڈیٹ لے کرحکومت بننی چاہیے۔ عوامی مشکلات کو مدنظر رکھ کر ہی پی ٹی آئی نے استعفے دیے تھے اور اب بھی عوام کی آواز ایوان کے باہر بھر پوراٹھائی جارہی ہے۔‘

مجیب الرحمن شامی کے مطابق ’ملکی تاریخ میں ایسا کم دیکھا گیا ہے کہ جمہوری دور حکومت میں تمام سیاسی جماعتوں کسی نہ کسی شکل میں برسراقتدار ہوں۔ مسلم لیگ ن سمیت پی ڈی ایم اور پیپلز پاررٹی وفاق اور سندھ میں حکومت میں ہیں کے پی کے، پنجاب، گلگت اور آزادکشمیر میں تحریک انصاف کی حکومت ہے اسی طرح بلوچستان میں بھی متحدہ حکومت بنی ہوئی ہے۔ لہذا جب ہر جماعت کہیں نہ کہیں حکومت میں ہے تو اپوزیشن کی بجائے حکومت چلانے پر توجہ زیادہ ہوتی ہے مگر پھربھی ایوان میں موثر اپوزیشن ہونی چاہیے۔‘

تنزیلہ مظہر کے خیال میں ’جس طرح وفاقی حکومت اپنی مرضی سے بغیر کسی مذاحمت کے نظام حکومت چلا رہی ہےاس میں وہ جو مرضی کرسکتے ہیں۔ اسی طرح پنجاب میں موثر اپوزیشن نہ ہونے کے باعث پرویز الہی حکومت گجرات کو ہی فنڈز جاری کر رہی ہے۔ صوبے میں باقی کسی طرف توجہ نہیں ہے صرف اقتدار کو مضبوط بنانے کی پالیسی چل رہی ہے وہ بھی بغیر کسی دباؤ یا تنقید کے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ان دنوں جس طرح مہنگائی کا طوفان عوام کی زندگیاں مشکل بنا رہا ہے آدھا ملک سیلاب سے متاثرہو چکا ہے لوگوں کو امداد کی ضرورت ہے مگر کوئی ان کی آواز بنتا دکھائی نہیں دے رہا یہی وجہ ہے کہ وفاقی اور پنجاب حکومت اپنے طریقے سے ہی برائے نام امدادی کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ ان حالات میں جس طرح پوری حکومتی مشینری آفت زدگان کے لیے سرگرم ہونی چاہیے تھی وہ دکھائی نہیں دے رہی۔‘

تنزیلہ نے کہا کہ ’وفاقی حکومت کی توجہ پی ٹی آئی لانگ مارچ روکنے کی تیاریوں پر مرکوز ہے جبکہ پی ٹی آئی کی توجہ اپنا لانگ مارچ کامیاب بنانے کے لیے عوامی رابطہ مہم جلسوں پر لگی ہے۔ ان حالات میں ایوانوں کے اندر غیر موثر اپوزیشن حکومتوں کو عوامی مشکلات ترجیحی اور ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کی طرف توجہ دلانے میں ناکام ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست