سرکاری اجلاس کے ’منٹس‘ سے کیا مراد ہے؟

سابق وزیر اعظم عمران خان کی ایک لیکڈ آڈیو میں ان کے اس وقت کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کو سائفر سے متعلق تجویز کردہ اجلاس کے منٹس مخصوص انداز میں مبینہ طور پر تحریر کرنے کا ذکر کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔

امور ریاست سے آگاہی رکھنے والوں کے خیال میں کسی باقاعدہ اجلاس کے وقوع پذیر ہونے سے قبل اس کے منٹس سے متعلق علم ہونا ممکن ہے، نہ ان پر تجزیہ پہلے سے سوچا جا سکتا ہے (اعظم خان فیس بک پیج)

سابق وزیر اعظم عمران خان کی گذشتہ ماہ منظر عام پر آنے والی پہلی مبینہ لیکڈ آڈیو میں پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کے خاتمے کی وجہ بننے والے سائفر کا ذکر آتا ہے۔

اس لیکڈ آڈیو میں سابق وزیر اعظم کے اس وقت کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان سائفر پر اجلاس کی تجویز پیش کرتے ہوئے اس کے منٹس مخصوص انداز میں مبینہ طور پر لکھنے کا ذکر کرتے ہیں۔

اعظم خان کی پہلے سے طے شدہ انداز میں منٹس بنانے کی بات پر روایتی اور سوشل میڈیا میں بہت بحث ہوئی اور وزیر اعظم کے سابق پرنسپل سیکریٹری کی تجویز کو آڑے ہاتھوں لیا گیا۔

ہم یہاں یہ واضح کرنے کی کوشش کریں گے کہ وزیراعظم ہاؤس یا اس جیسے دوسرے اہم سرکاری مقامات پر ہونے والے اجلاسوں کے منٹس کیسے ترتیب دیے جاتے ہیں اور ان کا استعمال، مقصد، اہمیت و افادیت اور مستقبل کیا ہوتا ہے؟

اعظم خان نے کیا کہا تھا؟

کسی بھی اہم اجلاس کے منٹس سے متعلق بات کرنے سے پہلے دیکھ لیتے ہیں کہ اعظم خان نے اس مبینہ لیکڈ آڈیو میں کیا کہا تھا۔

سابق وزیر اعظم کے اس وقت کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان لیکڈ آڈیو میں عمران خان کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں: ’میں یہ سوچ رہا تھا کہ اس سائفر کے اوپر ایک میٹنگ کر لیتے ہیں، آپ کو یاد ہے تو آخر میں ایمبیسڈر (سفیر) نے لکھا تھا کہ ڈیمارش کریں، اگر ڈیمارش نہیں بھی دینا تو میں نے سوچا ہے کہ اس کو کور کیسے کرنا ہے؟ ایک میٹنگ کریں شاہ محمود اور فارن سیکریٹری کی جس میں شاہ محمود لیٹر پڑھ کر سنائیں گے اور وہ جو بھی پڑھ کر سنائیں گے اس کو کاپی میں بدل دیں گے وہ میں منٹس میں کر دوں گا کہ فارن سیکریٹری نے یہ چیز بنا دی ہے۔‘

اعظم خان مزید کہتے ہیں: ’ہم منٹس میں تجزیہ لکھیں گے کہ سفارتی زبان میں اس کو دھمکی کہتے ہیں۔۔۔منٹس تو پھر میرے ہاتھ میں ہیں۔‘

ناقدین کا کہنا ہے کہ اس گفتگو سے یہی تاثر ملتا ہے کہ شاید اجلاس کے منٹس میں ’ہیرا پھیری‘ کے ذریعے سائفر کے معاملے کو اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔

اجلاس کے منٹس

کئی سرکاری عہدوں پر فرائض سر انجام دینے والے ریٹائرڈ سول سرونٹ میاں جہانگیر کا سرکاری اجلاسوں کے منٹس سے متعلق کہنا تھا: ’ہر سرکاری اجلاس ایک مخصوص ایجنڈے کے مطابق ہوتا ہے، اور اس میں کیے گئے فیصلوں کو میٹنگ منٹس کی شکل میں ریکارڈ کیا جاتا ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ ایوان صدر، وزیر اعظم ہاؤس اور کسی بھی سرکاری دفتر میں یا سرکاری امور سے متعلق ہونے والے کسی بھی اجلاس کے منٹس لینا ایک عام رواج (common practice) ہے۔

اسلام آباد میں گذشتہ تین دہائیوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ خالد محمود نے سرکاری اجلاس کے منٹس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’کسی اجلاس میں جو کچھ بولا جاتا ہے وہ اس کے منٹس کا حصہ بن جاتا ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے خالد محمود نے بتایا کہ وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے اکثر اجلاسوں میں وزرا اپنی اپنی وزارتوں سے پروپوزلز (سفارشات) لے کر آتے ہیں، جن پر بحث ہوتی ہے۔

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ان سفارشات کے حق اور مخالفت میں باتیں ہوتی ہیں، یا ان میں تبدیلیاں تجویز کی جاتی ہیں اور حتیٰ کہ سوالات بھی پوچھے جا سکتے ہیں۔

’یہ تمام گفتگو ہر بولنے والے کے نام کے ساتھ من وعن لکھی جاتی ہے اور انہی کو اس اجلاس کے منٹس کہا جاتا ہے۔‘

خالد محمود نے مزید کہا کہ اجلاس میں کسی ایشو پر ووٹنگ کی صورت میں اس کے نتیجے یا فیصلے کا ذکر بھی منٹس میں کیا جاتا ہے، جبکہ حق یا مخالفت میں ووٹ دینے والوں کی شناخت بھی بوقت ضرورت منٹس کا حصہ بن سکتی ہے۔

ریٹائرڈ سرکاری افسر میاں جہانگیر نے کہا: ’کسی اجلاس کے منٹس کا مطلب ہے اس اجلاس کی تفصیلات، لیے گئے یا نہ لیے گئے یا ملتوی کیے گئے فیصلوں کی وضاحت اور ان کی تفصیلات۔‘

پیشہ ور افراد کو بہتر انداز تحریر اپنانے میں معاونت فراہم کرنے والی ویب سائٹ گرامرلی پر چھپنے والے ایک مضمون میں ریچل میلیٹزر لکھتی ہیں: ’منٹس کسی اجلاس کا تحریری ریکارڈ ہوتا ہے، جو عام طور پر تشکیل شدہ اور رسمی ہوتے ہیں تاکہ انہیں اجلاس کے بعد شیئر اور مستقبل میں تاریخی دستاویزات کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔‘

انہوں نے مزید لکھا کہ منٹس کی مدد سے کسی اجلاس میں شامل نہ ہونے والے بھی اس کارروائی کو سمجھ سکتے ہیں۔

کسی بھی رسمی اجلاس کے منٹس میں اس بیٹھک کا عنوان یا مقصد، تاریخ، وقت، مقام اور شرکا کے نام کا موجود ہونا بہت ضروری ہے۔

منٹس لکھتا کون ہے؟

اجلاسوں کے منٹس تحریر کرنے کی ذمہ داری عام طور پر وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری کی ہوتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پرنسپل سیکریٹری منٹس لکھنے کا کام اپنے سٹاف میں کسی افسر کے حوالے بھی کر سکتے ہیں، تاہم اس تحریر (منٹس) کی حتمی منظوری انہوں نے دینا ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ایوان وزیر اعظم میں وزرا اپنی وزارتوں کی جانب سے سفارشات پیش کرنے کی صورت میں متعلقہ وزارت کے عملے کے لوگ منٹس تیار کرتے ہیں۔

’ویسے اصولاً تو وزیر کو خود منٹس کے لیے نوٹس لینا چاہیے، لیکن ہمارے ہاں وزیر یہ کام اپنی وزارت کے عملے سے لیتے ہیں۔‘

خالد محمود کا کہنا تھا کہ ہر وزارت یا شعبے کے منٹس لکھنے کا اپنا سٹائل اور زبان ہوتی ہے اور اس کا پوری طرح خیال رکھا جاتا ہے۔

انہوں نے وضاحت کی غرض سے وزارت خارجہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ خارجہ امور سے متعلق ایشوز پر بحث یا تحریر کے لیے مخصوص الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔

’اس میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ بظاہر ایک جیسے معنی رکھنے والے الفاظ کا خارجہ امور میں مختلف اور مخصوص مطالب تصور کیا جاتا ہے۔‘

منٹس کا کیا بنتا ہے؟

کسی سرکاری اجلاس کے منٹس بن گئے تو اس کے بعد ان کے ساتھ کیا کیا جاتا ہے؟

ریٹائرڈ سرکاری ملازم میاں جہانگیر نے منٹس کے مستقبل سے متعلق بتایا کہ ہر اجلاس کے خاتمے کے پر اس کے منٹس اجلاس کے تمام شرکا کو بھیجے جاتے ہیں، اور سب کی منظوری کے بعد اس میٹنگ کے منظور شدہ حتمی منٹس (اور فیصلے) بن جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری اجلاسوں کے منٹس ریاست کی ملکیت بن جاتے ہیں، اور انہیں متعلقہ وزارت کے ریکارڈ میں رکھا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سینیئر صحافی خالد محمود کا اس سلسلے میں کہنا تھا کہ ایک اجلاس کے منٹس اسی نوعیت کے آئندہ اجلاس میں پڑھنے سے شرکا کو گذشتہ اجلاس میں ہونے والی بحث اور فیصلوں کی تفصیلات معلوم ہو جاتی ہیں۔

میاں جہانگیر نے کہا کہ وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے اجلاسوں کے منٹس اسی ایوان کی ملکیت بن جاتے ہیں اور وہی رکھے جاتے ہیں۔

ریچل میلیٹزر اپنے مضمون میں لکھتی ہیں: ’اجلاسوں کے منٹس کسی قانونی صورت حال میں مستعدی، اخلاقیات، اور ضابطہ کی تعمیل ثابت کرتے ہیں۔‘

اعظم خان کے منٹس

خالد محمود کا کہنا تھا کہ لیکڈ آڈیو میں سابق وزیر اعظم کے اس وقت کے پرنسپل سیکریٹری ظاہراً اپنے ہی تجویز کردہ اجلاس کے منٹس میں ’ردوبدل‘ کرنے کی بات کر رہے تھے۔

’اس گفتگو کو سن کر ایسا تاثر ملتا ہے کہ شاید اعظم خان مستقبل میں ہونے والے اجلاس کے منٹس کو کوئی دوسرا زاویہ دینے کا سوچ رہے تھے۔‘

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اعظم خان نے لیکڈ آڈیو میں کہیں بھی منٹس میں براہ راست ردوبدل کا ذکر نہیں کیا بلکہ ان کے یہ الفاظ کے ’منٹس تو پھر میرے ہاتھ میں ہیں‘ سے ناقدین اخذ کر رہے ہیں کہ ان کا اشارہ منٹس میں ردوبدل کا ہے۔

اسلام آباد میں وزیر اعظم ہاؤس میں تعینات ایک سینیئر سرکاری افسر کا اس سلسلے میں کہنا تھا کہ کسی بھی اجلاس کے منٹس سے متعلق پہلے سے فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے کہا: ’منٹس سے مراد اس اجلاس کی پوری کارروائی اور اس کے نتیجے میں ہونے والے فیصلے ہیں، جو پہلے سے کسی صورت معلوم نہیں ہو سکتے۔‘

انہوں نے کہا کہ لیکڈ آڈیو میں پرنسپل سیکریٹری واضح طور پر پہلے سے ہی منٹس کی تفصیلات کا عندیہ دے رہے ہیں۔

’وہ تو یہاں تک کہتے سنے جا سکتے ہیں کہ منٹس میرے ہاتھ میں ہیں، یعنی میں اپنی مرضی کے مطابق انہیں ڈھال سکتا ہوں، جو سراسر غیر قانونی اور غیر اخلاقی عمل ہے۔‘

کیا منٹس میں تجزیہ شامل کیا جا سکتا ہے؟

اعظم خان مبینہ لیکڈ آڈیو میں کہتے سنے جا سکتے ہیں کہ وہ ان کے تجویز کردہ اجلاس کے منٹس میں اپنا تجزیہ شامل کر لیں گے کہ ’یہ دھمکی ہے۔‘

سینیئر صحافی خالد محمود کا کہنا تھا کہ اجلاس میں ہونے والی گفتگو یا بحث کی روشنی میں منٹس میں تجزیہ شامل کیے جانے کی روایات موجود ہیں۔

تاہم وزیر اعظم ہاؤس میں ذمہ داریاں سر انجام دینے والے سینیئر اہلکار نے کہا کہ اعظم خان اجلاس سے پہلے ہی تجزیے کی تفصیلات بتا رہے ہیں۔

’تجزیہ تو اجلاس کی کارروائی پورا ہونے کے بعد منٹس کی بنیاد پر بنایا اور منٹس میں شامل کیا جانا چاہیے، نہ کہ اجلاس سے پہلے ہی۔‘

پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت نے ان آڈیوز کی تحقیقات کا حکم دے رکھا ہے۔ ان تحقیقات کے لیے وزیر داخلہ رانا ثنا کی سربراہی میں اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی کو ٹاسک سونپا گیا ہے۔

اپنے ردعمل میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ’اس کے اوپر تو میں نے کھیلا ہی نہیں ابھی، یہ ایکسپوز کریں گے تو کھیلیں گے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان