800 کے قریب فلسطینی اسرائیل کی ’غیر قانونی‘ حراست میں: رپورٹ

فلسطینی تنظیم الضمیر جس کے اپنے محقق مارچ سے اسرائیل کی انتظامی حراست میں ہیں، نے قیدیوں کی تعداد کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ برسوں میں ان کی تعداد دگنی ہو چکی ہے۔

عرب اسرائیلی شمالی اسرائیل کی گلبوا جیل کے باہر 18 ستمبر 2021 کو جمع ہیں اور فلسطینی قیدیوں حمایت کر رہے ہیں (اے ایف پی فائل)

انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے حکام نے کہا ہے کہ اسرائیل نے سات بچوں سمیت تقریباً آٹھ سو فلسطینیوں کو بغیر کسی مقدمے یا الزامات کے قید کر رکھا ہے۔

قیدیوں کی یہ تعداد 15 سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔ ان تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل کا یہ عمل غیر قانونی اور ’سنگین اور توہین آمیز سلوک کے مترادف ہے۔‘

انسانی حقوق کے اسرائیلی گروپ ہموکید جو باقاعدگی سے اسرائیلی جیلوں سے اعداد و شمار جمع کرتا ہے، نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ اسرائیل نے 798 فلسطینیوں کو انتظامی حراست میں رکھا ہوا ہے، جو مئی 2008 کے بعد سے سب سے زیادہ تعداد ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم کا مزید کہنا ہے کہ قیدیوں میں دو خواتین اور سات بچے بھی شامل ہیں۔ سب کم عمر کا قیدی 16 سال کا ہے۔ ان قیدیوں کو مقدمہ چلائے بغیر غیر معینہ مدت اور بعض اوقات سالوں تک بند رکھا جا سکتا ہے۔

قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی فلسطینی تنظیم الضمیر جس کے اپنے محقق مارچ سے اسرائیل کی انتظامی حراست میں ہیں، نے قیدیوں کی تعداد کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ برسوں میں ان کی تعداد دگنی ہو چکی ہے۔

اسرائیل کی فوج نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ انتظامی حراست کا استعمال صرف اس صورت میں کیا جاتا ہے ’جب سکیورٹی حکام قابل اعتماد اور اچھی طرح سے معلومات رکھتے ہوں جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ زیر حراست شخص علاقے کی سلامتی کے لیے حقیقی خطرہ ہے اور خطرے کو دور کرنے کے لیے دیگر متبادل اقدامات موجود نہیں ہیں۔‘

اسرائیلی فوج نے درست اعداد و شمار پر کوئی تبصرہ نہیں کیا حالاں کہ اعداد و شمار اسرائیل کی جیل سروس نے فراہم کیے ہیں لیکن فوج نے مزید کہا کہ ’اس وقت انتظامی حراست میں موجود قیدیوں کی تعداد ہر قیدی کی طرف سے لاحق سکیورٹی خطرے کا نتیجہ ہے۔‘

تاہم اسرائیل کی انتظامی حراست کے استعمال کی بارہا مذمت کی گئی ہے اور اقوام متحدہ کے ماہرین اور انسانی حقوق کی محافظ تنظیموں اسے غیر قانونی بھی قرار دیا ہے۔

فلسطینیوں کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانیزے کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ حراست میں لیے گئے افراد کو زیادہ تر اسرائیلی انٹیلی جنس کے ثبوتوں کی بنیاد پر بغیر کسی گرفتاری کے وارنٹ یا الزام یا مقدمے کے ’غیر معینہ مدت‘ کے لیے قید رکھا جا سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بچوں کے خلاف انتظامی حراست کا ’وسیع‘ استعمال کیا جا رہا ہے۔ بعض بچوں کی عمر محض 12 سال ہے۔ اس کارروائی سے جنیوا کنونشن اور بین الاقوامی قانون کی ’بڑی خلاف ورزیاں ہوئی ہیں۔‘ بعض قیدی اتنے مایوس ہو گئے کہ انہوں نے بھوک ہڑتال شروع کر دی۔

انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’تکنیکی طور پر آپ پوری زندگی انتظامی حراست میں رہ سکتے ہیں۔ اس سے بلاجواز نفسیاتی نتائج پیدا ہوتے ہیں۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیل کے اس عمل پر مستقبل میں آنے والی رپورٹ میں وہ اس بات کا جائزہ لیں گی کہ آیا یہ تشدد کے مترادف ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ انتظامی حراست کے ’بڑے پیمانے پر منظم استعمال‘ کا اکثر مطلب من مانی حراست ہوتا ہے کیوں کہ اس سے ’چوتھے جنیوا کنونشن کی بری خلاف ورزیاں انسانی حقوق کے عالمی قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا مزید کہنا تھا کہ جو ’بات بہت اہم ہے وہ یہ ہے کہ اسے تحریک اور قبضے کی مخالفت روکنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

’یہ بچوں اور طلبہ، انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں، سیاسی کارکنوں اور سیاسی شخصیات کے حوالے سے خاص طور پر تشویشناک ہے۔
’یہی وجہ ہے کہ اس کی مکمل تحقیقاتی ہونی چاہیے۔‘

اقوام متحدہ کے مطابق بین الاقوامی قانون ریاست کو انتظامی حراست کا استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے لیکن صرف ہنگامی حالات میں۔ اور ’اگر منصفانہ سماعت فراہم کی جا سکتی ہو جس میں زیر حراست فرد اپنے یا اپنے خلاف الزامات کو چیلنج کر سکتا ہے۔‘

قبضے کی صورت میں چوتھے جنیوا کنونشن کا آرٹیکل 78 صرف قابض طاقت کو ’سکیورٹی کی ضروری وجوہات کی بنا پرانتظامی حراست میں رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔‘

اسرائیل نے 1967 کی جنگ میں مغربی کنارے، مشرقی بیت المقدس اور غزہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ فلسطینی ان علاقوں کو اپنی اس آزاد ریاست کے لیے لینا چاہتے ہیں جس کی انہیں امید ہے۔

صوابدیدی حراست سے متعلق اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے فلسطینیوں کی انتظامی حراست کے متعدد معاملات کا جائزہ لیا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس کا استعمال من مانی تھا۔

اسرائیل نے بارہا اس مشق کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حملوں اور خطرناک عسکریت پسند گروپوں کو روکنے کے لیے انتظامی حراست کا استعمال کرتا ہے۔

اسرائیلی فوج نے دی انڈپینڈنٹ کو دیے گئے بیان میں کہا کہ ’انتظامی حراست کا فیصلہ ہر صورت حال میں انفرادی طور پر کیا جاتا ہے اور یہ ہر زیر حراست شخص کے بارے میں اچھی طرح سے دستیاب معلومات پر مبنی ہوتا ہے جس میں علاقے میں سکیورٹی کی صورت حال کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔

’ہر کیس میں جب انتظامی حراست کا وارنٹ جاری کیا جاتا ہے تو فوجی عدالت کی طرف سے اس کی عدالتی نظر ثانی کی جاتی ہے۔ اس نظر ثانی کے دوران انتظامی حراست کے وارنٹ کے لیے دستیاب معلومات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ ملٹری کورٹ اپیلز اور سپریم کورٹ فوجی عدالت کے فیصلے پر نظر ثانی کر سکتی ہیں۔‘

ہموکید نے کہا کہ انتظامی حراستوں میں اضافہ گذشتہ موسم بہار میں فلسطینیوں کی طرف سے اسرائیلیوں کے خلاف ان حملوں کے بعد شروع ہوا جس میں 19 افراد ہلاک ہوئے۔ بعد ازاں اسرائیلی کارروائیوں میں 120 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس طرح یہ سال 2015 کے بعد سب سے زیادہ ہلاکت خیز رہا۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ مارے جانے والوں میں سے بہت سے عسکریت پسند تھے لیکن اسرائیلی کارروائیوں کے خلاف احتجاج کرنے والے اور بعض شہری بھی تشدد میں مارے گئے۔ اس میں شدت صرف حالیہ دنوں میں آئی۔

جمعے کو فلسطینی وزارت صحت نے کہا کہ اسرائیلی فوج نے مقبوضہ مغربی کنارے میں جنین پناہ گزین کیمپ پر چھاپے کے دوران دو فلسطینیوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

اسرائیلی فوج نے فوری طور پر تفصیل بتائے بغیر تصدیق کی کہ وہ جینین پناہ گزین کیمپ میں سرگرم ہے۔

سینکڑوں لوگوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے جن میں سے اکثر انتظامی حراست میں ہیں۔

ہموکید کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر جیسیکا مونٹل جنہوں نے تازہ ترین اعدادوشمار جمع کیے، نے کہا ہے کہ تعداد ’بہت زیادہ ہے‘ اور یہ کہ اسرائیل ’مقدمے کے بغیر حراست کا تھوک کے حساب سے استعمال کر رہا ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی شہریوں کو ’کسی مؤثر عدالتی نظر ثانی کے بغیر خفیہ معلومات‘ کی بنیاد پر حراست میں رکھا جاتا ہے۔

انسانی حقوق کی فلسطینی تنظیم الضمیر جس کے محقق اور انسانی حقوق کے فلسطینی نژاد وکیل صلاح حموری جو مارچ سے انتظامی حراست میں ہیں، نے کہا کہ یہ بہت سے حالات میں تشدد کے مترادف ہوگا کیوں کہ قیدیوں کے پاس یہ جاننے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ ان کی حراست کب ختم ہو گی۔

رام اللہ میں قائم تنظیم کی ڈائریکٹر سحرفرانسس کا کہنا تھا کہ ’جب آپ پر الزام عائد کیا جاتا ہے تو کم از کم آپ جانتے ہیں کہ آپ اپنا دفاع کیسے کر سکتے ہیں اور آپ کو معلوم ہو گا کہ آپ کو کتنی مدت کی سزا سنائی جائے گی اور کب آپ اپنی سزا مکمل کر لیں گے۔

’وہ قیدیوں کو ایک یا دو ماہ کے لیے تسلسل کے ساتھ رہا کرتے ہیں اور پھر انہیں دوبارہ گرفتار کر لیتے ہیں۔ یہ بہت پریشان کن صورت حال ہے کہ اسرائیل کسی احتساب کے بغیر اس پالیسی پر کئی دہائیوں سے عمل پیرا ہے۔‘

اسرائیلی فوج نے اپنے گذشتہ بیانات میں کہہ چکی ہے کہ اس نے حموری کو پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین میں متحرک ہونے کے شبے میں حراست میں لیا۔ اسرائیل کے مغربی اتحادیوں نے اس تنظیم کو دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا