حکومت کے حق میں گانے سے انکار پر ایرانی طالبہ قتل

ایرانی ٹیچرز ٹریڈ ایسوسی ایشن کی رابطہ کار کونسل کے مطابق، 16 سالہ اسرا پناہی کو 13 اکتوبر کو اردبیل میں شہید گرلز ہائی سکول پر چھاپہ مارنے کے بعد سکیورٹی فورسز نے کئی ہم جماعتوں کے ساتھ مبینہ طور پر مارا پیٹا تھا۔

ایرانی خواتین ’اخلاقی پولیس‘ کے ہاتھوں 22 سالہ مہسا امینی کی دوران حراست موت کے بعد یکم اکتوبر 2022 کو مظاہرے کر رہی ہیں (اے پی)

تہران میں ایک ایرانی سکول کی طالبہ کو مبینہ طور پر اس کے کمرہ جماعت میں حکومت کے حق میں گانا گانے سے انکار کرنے پر قتل کر دیا گیا ہے۔

ایرانی ٹیچرز ٹریڈ ایسوسی ایشن کی رابطہ کار کونسل کے مطابق، 16 سالہ اسرا پناہی کو 13 اکتوبر کو اردبیل میں شہید گرلز ہائی سکول پر چھاپہ مارنے کے بعد سکیورٹی فورسز نے کئی ہم جماعتوں کے ساتھ مبینہ طور پر مارا پیٹا تھا۔

کئی لڑکیوں کو ہسپتال لے جایا گیا اور کئی کو گرفتار کر لیا گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ پناہی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئیں۔

ایرانی ریاستی عہدیداروں نے اس واقعے کی ذمہ داری لینے سے انکار کیا ہے۔

ایک شخص جو اسرا پناہی کا چچا ہونے کا دعویٰ کر رہا تھا ان کی موت کے بعد غم و غصے کے لہر کے دوران سرکاری ٹی وی پر نمودار ہوا اور یہ دعویٰ کیا کہ ان کی موت پیدائشی دل کی بیماری کے سبب ہوئی ہے۔

اگست میں ملک کی ’اخلاقی پولیس‘ کی حراست میں 22 سالہ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد حالیہ ہفتوں میں مظاہروں کا دائرہ پورے ایران میں پھیل گیا ہے۔

ان مظاہروں میں نوجوان خواتین اور لڑکیاں خاص طور پر حکومت کی مخالفت میں پیش پیش نظر آ رہی ہیں۔ مظاہروں میں بہت سے لوگوں کے حجاب اتارنے اور ملک کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے خلاف نعرے لگانے کی فوٹیج وائرل ہو رہی ہیں۔

مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن وحشیانہ رہا ہے جس کے دوران سکولوں پر چھاپے مارے گئے، گرفتاریاں کی گئیں، مار پیٹ اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔ اس کریک ڈاؤن کو ملک کی اساتذہ کی انجمن نے ’سفاکانہ اور غیر انسانی‘ قرار دیا ہے۔

ایران میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم گروپ کا کہنا ہے کہ مظاہروں اور ان کے نتیجے میں ہونے والے کریک ڈاؤن میں اب تک 215 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 27 بچے بھی شامل تھے۔

ایک سکول کی طالبہ جن کی شناخت چھپاتے ہوئے انہیں نازنین کا نام دیا گیا ہے نے دی گارڈین اخبار کو بتایا: ’مجھے سکول جانے کی اجازت نہیں دی گئی کیوں کہ میرے والدین کو میری جان کا خوف ہے لیکن اس میں کیا تبدیلی آئی ہے؟ حکومت سکول کی طالبات کو قتل اور گرفتار کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

’اگر میں صرف گھر میں ناراض بیٹی رہوں تو مجھے کیا فائدہ؟ میں خود اور ایران بھر کے ساتھی طلبہ نے اس ہفتے سڑکوں پر احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں یہ کروں گی چاہے مجھے اب اسے اپنے والدین سے چھپانا پڑے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک اور خاتون جنہیں نرگس کا نام دیا گیا ہے نے دی گارڈین کو بتایا کہ پناہی کی موت کے بعد احتجاج کے لیے جانے کے بعد انہیں ربڑ کی گولیوں سے مارا گیا تھا، اس کے علاوہ دو دیگر ایرانی سکولوں کی طالبات، 17 سالہ نیکا شاہکرامی اور 16 سالہ سرینا اسماعیل زادہ کی موت ہوئی تھی۔

نرگس نے کہا کہ ’اردبیل میں میرا ایک بھی رشتہ دار نہیں ہے لیکن ہماری 16 سالہ بہنوں پر اس ظالمانہ کریک ڈاؤن سے انہوں نے پوری قوم کو جگا دیا ہے۔

’ہمیں یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ پورے بلوچ اور کرد خطے میں ہم بہت متحد ہیں۔ دنیا نے نیکا کے سنا، سرینا اور اسرا کے بارے میں سنا لیکن کئی بے نام بچے ہیں جن کے بارے میں ہمیں کچھ نہیں معلوم۔

’اسلامی جمہوریہ ہمارے لوگوں کو 40 سالوں سے قتل کر رہا ہے لیکن ہماری آواز نہیں سنی گئی۔ دنیا کو معلوم ہو جانا چاہیے کہ صرف اب صرف احتجاج نہیں ہے، ہم انقلاب لانا چاہتے ہیں۔ اب جب آپ سب ہماری آواز سن رہے ہیں تو ہم نہیں رکیں گے۔‘

ایرانی خاتون کوہ پیما کو وضاحت کیوں دینی پڑی؟

ایران میں حکومت کے کریک ڈاؤن اور مظاہروں کی وجہ سے خوف کی فضا قائم ہے۔ اس خوف کی وجہ سے ایک ایرانی خاتون کو اپنے سکارف کے اتر جانے پر وضاحت پیش کرنی پڑی ہے۔

ایران کی خاتون کوہ پیما الناز رکابی نے منگل کو کہا ہے کہ جنوبی کوریا میں ہونے والے عالمی مقابلے میں شرکت کے دوران ان کا حجاب غلطی سے نیچے گر گیا۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حجاب گرنے کے واقعے کے بعد بڑے پیمانے پر سمجھا گیا کہ انہوں نے ایران میں جاری مظاہروں کی حمایت کی ہے۔

ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایشیائی مقابلے میں ایران کی نمائندگی کرنے والی 33 سالہ رکابی اپنے سر ڈھاپے بغیر دیوار پر چڑھ رہی ہیں۔

انسٹاگرام پر پوسٹ کیے گئے بیان میں الناز رکابی کا کہنا تھا کہ وہ ٹیم کی باقی ارکان کے ساتھ ایران واپس جا رہی ہیں۔ دوسری طرف بی بی سی فارسی نے باخبر ذرائع کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ رکابی کے دوست ان کے ساتھ رابطہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

مہسا امینی کی موت گذشتہ ماہ ایران کی اخلاقی پولیس کی حراست میں ہوئی  جس نے انہیں ’نامناسب لباس‘ کے باعث حراست میں لیا۔ امینی موت کے بعد ایران بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے جن میں خواتین نے سر سے حجاب اتار کر نذر آتش کر دیے۔

رکابی نے انسٹا گرام پر پوسٹ کیے گئے بیان میں کہا کہ ’سیؤل میں مقابلے کے دوران سر نہ ڈھانپنے میں ان کا ارادہ شامل نہیں تھا۔ مقابلے کے شیڈول میں کمزوریاں تھیں اور دیوار پر چڑھنے کے لیے اچانک میرا نام پکارا گیا۔‘

دوسری طرف جنوبی کوریا میں ایران کے سفارت خانے نے مقابلے کے بعد ایرانی اتھلیٹ کے لاپتہ ہو جانے کی ٹوئٹر پر تردید کی ہے۔

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ایران سے باہر فارسی زبان کے میڈیا نے خبردار کیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ایرانی حکام نے رکابی کو قبل از وقت جنوبی کوریا سے جانے پر مجبور کیا ہو اور ممکن ہے کہ انہیں ایران واپس پہنچنے پر گرفتار کر لیا جائے۔ ایران نے اس بات کی فوری طور پر تردید کی ہے۔

رکابی راک کلائمبنگ کے مقابلوں میں کئی تمغے جیت چکی ہیں۔ انہوں نے حجاب کے بغیر دیوار پر چڑھنے کا فیصلہ ایسے وقت کیا جب 16 ستمبر کو مہسا امینی کی موت کے بعد ایران میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔

بی بی سی فارسی نے یہ بھی رپورٹ کیا کہ ابتدائی طور پر رکابی نے بدھ کو ایران واپس پہنچنا تھا لیکن بظاہر ان کی پرواز میں غیر متوقع طور پر آگے کر دی گئی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا