مشکلات کے باوجود خواتین فضائی میزبان کیوں بننا چاہتی ہیں؟  

پی آئی اے کی سینیئر سٹاف ایسوسی ایشن (ساسا) کے جنرل سیکریٹری صفدر انجم کے مطابق فضائی میزبان ہونا دور سے آسان نظر آتا ہے۔ اس نوکری کے دوران مستقل کمر درد اور گردوں کی مسائل کی شکایات عام ہیں۔

21 اپریل 2010 کو کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر ٹیک آف سے قبل ایک ایئر ہوسٹس مسافروں سے محو گفتگو (اے ایف پی)

ستمبر 2022 کے تیسرے ہفتے میں پی آئی اے کی پشاور سے دبئی جانے والی پرواز کے دوران ایک نوجوان مسافر کی طرف سے ہنگامہ آرائی کا واقعہ سوشل میڈیا پر دیکھا گیا۔

وائرل ویڈیو میں مسافر کو جہاز کے فرش پر لیٹنے اور سیٹ پر واپس جانے کی ہدایت پر جہاز کی کھڑکی توڑنے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ عملے نے بالاخر مسافر پر قابو پا لیا۔ 

ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ سال امریکی ایئرلائن ساؤتھ ویسٹ میں پیش آیا جہاں مسافر نے فضائی میزبان پر حملہ کرکے ان کے دو دانت توڑ دیے۔  

فلائیٹ میں اس طرح کے پرتشدد واقعات کے باوجود پاکستان میں نوجوان خواتین کا فضائی میزبان بننے کا رجحان عام ہے۔ 

پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن (پی آئی اے)  کی ترجمانی کرتے ہوئے سابق فضائی میزبان رحیم داد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’پاکستان میں ہر شعبے میں خواتین کی بڑی تعداد نظر آئے گی، مگر دیگر شعبوں میں خواتین کو اتنی ترجیح نہیں دی جاتی جتنی فضائی میزبان کی نوکری میں دی جاتی ہے۔‘

’جہاز پر اتنے مسائل بھی نہیں ہوتے جتنے عام لوگ سمجھتے ہیں۔ فضائی میزبان کی بہترین تربیت کی جاتی ہے کہ وہ کیسے مسائل کو بروقت حل کریں۔‘

پی آئی اے کی بین الاقوامی پروازوں میں گزشتہ 12 سال سے فضائی میزبان کے فرائض سرانجام دینے والے انیقہ طاہر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’بہترین تنخواہ، الاؤنسز اور مفت میں دنیا گھومنے کے باعث خواتین فضائی میزبان کی نوکری کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔‘

 انیقہ طاہر کے مطابق ’ہمیں اچھی تنخواہ کے ساتھ میڈیکل الاؤنس، فلائٹ الاؤنس اور جہاں جاتے ہیں وہاں رہائش اور کھانے پینے کا بھی الاؤنس ملتا ہے۔‘

’میں اپنی 12 سال کی نوکری میں امریکہ، یورپ کے کئی ممالک اور سعودی عرب سمیت آدھی دنیا دیکھ چکی ہوں۔‘

انیقہ طاہر کے مطابق عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ ’فضائی میزبان نے اتنا اچھا میک اپ کیا ہوا ہوتا ہے تو ایئرلائن ان کو مفت میں میک اپ بھی کرواتی ہے، تو ایسا نہیں ہے۔‘

’پی آئی اے اپنے فضائی میزبانوں کو میک اپ نہیں دیتی اور نہ ہی فلائٹ کے لیے کوئی میک اپ آرٹسٹ ہوتا ہے۔ ہم میک اپ خود خریدتے ہیں، بلکہ کرنا بھی ہمیں خود ہی ہوتا ہے۔‘

’پی آئی اے ہمیں مختلف اوقات میں تربیت ضرور کراتی ہے کہ میک اپ اور کپڑوں کے ساتھ ہمیں کیا کرنا چاہیے کیوں کہ ہم قومی ایئر لائین کا چہرہ ہیں۔‘

انیقہ طاہر نے مزید کہا کہ ’ایک عام تصور ہے کہ اگر کوئی لڑکی ایئرہوسٹس بن جائے تو اچھے رشتے آتے ہیں، مگر یہ درست نہیں۔‘

’اچھے رشتے تو ان کے بھی آتے ہیں جو کچھ نہیں کرتیں اور گھر رہنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ اچھے رشتے نصیب سے آتے ہیں، نوکری سے نہیں۔‘

پی آئی اے کے ساتھ ایئرہوسٹس کے طور پر گزشتہ 17 سال سے کام کرنے والی شمع کیریو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ’امریکہ، یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی نسبت برصضیر کے مسافر فضائی میزبانوں کو زیادہ تنگ کرتے ہیں۔ بورڈنگ میں دیر، پسند کی سیٹ نہ ملنا اور دیگر سہولیات نہ ملنے پر لوگ غصہ کرتے ہیں۔‘

’ایسا بھی نہیں ہے کہ ایئرہوسٹس کو بہت زیادہ الاؤنس ملتے ہیں، ان سے تو بہت زیادہ ایک خاتون ٹی وی اینکر پرسن کو پیسے ملتے ہوں گے۔ اس نوکری میں دنیا مفت میں گھومنے کے ساتھ شاپنگ کا وقت اور جہاں جاتے ہیں وہاں اپنا ذاتی کم از کم فورسٹار ہوٹل کا کمرا ملتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پی آئی اے کی سینیئر سٹاف ایسوسی ایشن (ساسا) کے جنرل سیکریٹری اور ایئرلائن میں چار دہائیوں تک فرائض سرانجام دینے والے صفدر انجم کے مطابق فضائی میزبان کی نوکری خواتین میں مقبول ہونے کی دیگر وجوہات میں بڑی وجہ یہ ہے کہ بطور فضائی میزبان خواتین کو ترجیح دی جاتی ہے۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے صفدر انجم نے بتایا: ’پاکستان میں ہر چھ مہینے بعد ہی فضائی میزبان کی نوکری کے اشتہار اخبارات میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اور اب صرف خواتین کو ہی فضائی میزبان کی نوکری دی جاتی ہے، اور اس نوکری کے لیے زیادہ تعلیم بھی نہیں مانگی جاتی، اس لیے بھی نوجوان لڑکیاں فضائی میزبان بننے کو ترجیح دیتی ہیں۔ لیکن یہ نوکری اتنی آسان بھی نہیں ہے جتنی نظر آتی ہے۔‘

’عام لوگوں کو لگتا ہے کہ فضائی میزبان خاتون صرف مسافروں کو چائے ہی تو پلاتی ہیں، اس میں کیا محنت ہے؟ مگر فضائی میزبان کو جہاز کے ہر ایک مسافر کو کھانا دینے کے لیے ٹرالی پر بار بار جھکنا پڑتا ہے، بعد میں خالی برتن رکھنے کے لیے بھی بار بار جھکنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے فضائی میزبان بننے والی نوجوان لڑکی بھی چند سال میں کمردرد کی مریض بن جاتی ہے۔‘

اس کے علاوہ فلائٹ ایک بند کیپسول کی طرح ہوتی ہے جس میں مسافر تو منزل آنے پر اتر کر چلے جاتے ہیں۔ مگر فضائی میزبان وہیں رہتی ہیں۔ اس لیے فضائی میزبانوں میں گردوں کے امراض بھی عام ہوتے ہیں۔‘

’مرد مسافر فضائی میزبان لڑکیوں سے ان کے موبائل نمبر مانگنے یا اپنا بزنس کارڈ زبردستی دینے کے علاوہ کئی طریقوں سے تنگ بھی کرتے ہیں۔ مگر فضائی میزبان کی تربیت ایسی ہوتی ہے کہ وہ خندہ پیشانی سے تنگ کرنے والے مسافروں کو بھی سمجھا لیتی ہیں۔ اتنی مشکلات کے باوجود دیگر شعبوں میں مواقع نہ ہونے کے باعث لڑکیاں فضائی میزبان بننے کو ترجیح دیتی ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان