کابل کے لیے کمرشل پروازوں کی خبر درست نہیں: پی آئی اے

پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) ترجمان نے اسلام آباد سے کابل فلائٹ آپریشن سے متعلق وضاحت جاری کی ہے کہ اس بارے میں تاحال کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ 

پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) ترجمان نے اسلام آباد سے کابل فلائٹ آپریشن سے متعلق وضاحت جاری کی ہے کہ اس بارے میں تاحال کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ 

پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ نے کہا کہ پیر سے کابل فلائٹ آپریشن کے دوبارہ آغاز سے متعلق میڈیا میں شائع ہونے والی خبریں درست نہیں ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ افغان دارالحکومت میں کچھ شخصیات نے پی آئی اے کو چارٹر فلائٹ کے آغاز کی درخواست کی ہے،جس کے لیے پی آئی اے کواجازت درکار ہے۔ 
ان کا کہنا تھا کہ دراصل پی آئی اے نے چارٹر فلائٹس کی درخواست دی تھی جسے میڈیا میں معمول کے فلائٹ آپریشن کے طور پر نشر کیا گیا جبکہ ایسا نہیں ہے۔ 

قبل ازیں فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کا کہنا تھا کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پی آئی اے پہلی غیر ملکی فضائی کمپنی بن جائے گی جو کابل سے کمرشل فلائٹس چلائے گی۔

کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کو ایک لاکھ 20 ہزار افراد کو وہاں سے نکالنے کے دوران شدید نقصان پہنچا تھا۔ طالبان کی کوشش ہے کہ اس ہوائی اڈے کو قطر کی تکنیکی مدد کے ساتھ جلد از جلد مکمل طور پر بحال کیا جائے۔
اے ایف پی کے مطابق پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان نے انہیں بتایا کہ ’ہمیں فلائٹ آپریشنز کے لیے تمام تکنیکی اجازتیں مل گئی ہیں۔‘

ہمارے کمرشل ہوائی جہاز اسلام آباد اور کابل کے درمیان 13 ستمبر سے پروازیں شروع کر دیں گے۔‘


’امریکہ کا افغانستان میں داعش کے مغالطے میں رضاکار پر ڈرون حملہ‘

امریکی اخبار دی نیو یارک ٹائمز کے مطابق ایک ویڈیو تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں اپنے آخری حملے میں داعش کے جنگجوؤں کے بجائے غلطی سے ممکنہ طور پر ایک امدادی کارکن کو نشانہ بنایا۔

ٹائمز نے جمعے کو ایک رپورٹ میں کہا کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا سے ایک دن پہلے اس ڈرون حملے میں 10 شہری ہلاک ہوئے تھے۔

پینٹاگون کا دعویٰ تھا کہ اس نے 29 اگست کو ایک ریپر ڈرون حملے کے ذریعے داعش کے نئے حملے کو روکا۔

کابل کے رہائشی ایمل احمدی نے اس رپورٹ سے قبل اے ایف پی کو بتایا تھا کہ اس حملے میں ان کی چھوٹی بیٹی، بھتیجے، بھانجیوں اور ان کے بھائی ازمرائی احمدی سمیت 10 شہری ہلاک ہوئے تھے جب ان کے بھائی نے ایک جگہ پر گاڑی کھڑی کی تھی۔ 

نیو یارک ٹائمز کے مطابق سکیورٹی کیمرے کی فوٹیج کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکی فوج نے مقتول احمدی اور ان کے ایک ساتھی کو گاڑی میں پانی کے ڈبے لوڈ کرتے ہوئے دیکھا ہو گا اس کے علاوہ انہوں نے اپنے باس کا ایک لیپ ٹاپ بھی اٹھا رکھا تھا۔

ازمرائی کے رشتہ داروں کے مطابق کیلیفورنیا میں قائم امداد اور لابنگ گروپ ’نیوٹریشن اینڈ ایجوکیشن انٹرنیشنل‘ کے لیے کام کرنے والے الیکٹریکل انجینیئر ازمرائی ان ہزاروں افغان نوجوانوں میں شامل تھے جنہوں نے امریکہ میں آبادکاری کے لیے درخواست دی تھی۔

امریکی حکام کا دعویٰ تھا کہ ڈرون حملے کے بعد ایک بڑا دھماکہ ہوا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گاڑی میں دھماکہ خیز مواد موجود تھا۔

تاہم نیو یارک ٹائمز کی تحقیقات میں کہا گیا کہ دوسرے دھماکے کے کوئی شواہد نہیں اور قریبی گیٹ پر صرف ایک ڈینٹ ہے اور اضافی دھماکے کے واضح آثار نہیں مثلا دیواریں اڑ گئی ہوں۔

امریکی حکام نے تین شہریوں کی ہلاکت کا اعتراف کرتے ہوئے دلیل دی کہ اس حملے نے ایک اور خطرناک دہشت گرد حملے کو روکا۔

پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکی سینٹرل کمانڈ اس حملے کا مسلسل جائزہ لے رہی ہے لیکن ’شہریوں کی ہلاکتوں کو روکنے کے لیے ہماری فوج سے زیادہ کوئی کام نہیں کرتا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’جیسا کہ چیئرمین (مارک) ملی نے کہا کہ حملہ اچھی انٹلی جنس کی بنیاد پر کیا گیا اور ہم اب بھی یقین رکھتے ہیں کہ اس ڈرون حملے نے ہوائی اڈے اور ہمارے مردوں اور عورتوں کو جو کہ ہوائی اڈے پر خدمات انجام دے رہے تھے ، آنے والے خطرے کو روکا۔‘

نیو یارک ٹائمز کی تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ایک راکٹ حملہ، جس کا دعویٰ داعش نے کیا تھا، احمدی سے ملتی جلتی ٹیوٹا کرولا سے کیا گیا تھا۔

براؤن یونیورسٹی کے اپریل میں ہونے والے ایک مطالعے کے مطابق 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد امریکہ کی جانب سے شروع کی گئی جنگ سے 71 ہزار سے زیادہ افغان اور پاکستانی شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔


طالبان کا پرتشدد ردعمل بڑھ رہا ہے: اقوام متحدہ

اقوام متحدہ نے طالبان کی مظاہرین کے خلاف کارروائیوں کی مذمت کی ہے اور الزام لگایا ہے کہ طالبان کا ’پرتشدد ردعمل بڑھ رہا ہے‘۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ طالبان نے حالیہ مظاہروں میں چار افراد کو ہلاک کیا ہے۔

طالبان نے 15 اگست کو افغان دارالحکومت کا کنٹرول سنبھال لیا اور اس کے بعد سے افغانستان میں خواتین کے حقوق اور زیادہ آزادی کے مطالبے کے لیے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔

اقوام متحدہ نے ایک بیان میں کہا کہ طالبان نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی اور گولیوں کا استعمال کیا۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا: ’ہم طالبان پر زور دیتے ہیں کہ وہ ان لوگوں کی صوابدیدی حراست اور تشدد کو فوری طور پر بند کریں جو پرامن اجتماع کا حق رکھتے ہیں اور اس طرح کے اجتماعات کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو بھی تحفظ دیں۔‘

جمعہ کو اقوام متحدہ کی ترجمان روینہ شامداسانی نے مظاہرین پر طالبان کے کریک ڈاؤن کی مذمت کی۔

انہوں نے کہا کہ احتجاج کا ایک سلسلہ 815 اگست سے شروع ہو چکا ہے۔

بدھ کو طالبان نے سرکاری اجازت کے بغیر احتجاج پر پابندی لگا دی جبکہ جمعرات کو انہوں نے ٹیلی کام کمپنیز کو کابل میں انٹرنیٹ سروس بند کرنے کا حکم دیا۔

اقوام متحدہ کے ترجمان نے کہا: ’عدم استحکام کے موجودہ تناظر میں، یہ ضروری ہے کہ یہ گروہ (طالبان) سڑکوں پر آنے والے افغان مردوں اور عورتوں کے مطالبات سنیں۔‘

اقوام متحدہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ حالیہ ہفتوں کے دوران احتجاج میں ایک لڑکے سمیت چار افراد ہلاک ہوئے اور مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ نے صحافیوں کے خلاف تشدد میں اضافے کی بھی مذمت کی ہے۔

متعدد افغان اور غیرملکی نے صحافیوں نے مظاہروں کی کوریج کے دوران انہیں مارنے پیٹنے اور حراست میں لینے کے الزامات بھی لگائے ہیں۔


طالبان مظاہرین اور صحافیوں کو نشانہ بنانا بند کریں: اقوام متحدہ

اقوام متحدہ نے افغانستان میں طالبان کی جانب سے مظاہروں کو روکنے کے لیے پرتشدد طریقہ کار اپنانے اور صحافیوں پر تشدد کی مذمت کرتے ہوئے تنبیہ کی ہے کہ ملک میں زیادہ تر خاندانوں کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی ترجمان روینا شمداسانی نے کہا: ’ہم طالبان پر زور دیتے ہیں کہ وہ پرامن اجتماع کا اپنا حق استعمال کرنے والوں اور ان مظاہروں کو کوور کرنے والے صحافیوں پر تشدد یا ان کو بےجواز حراست میں لینے سے فوراً گریز کریں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ طالبان جنگجو مظاہرین کو منتشر کرنے لیے اسلحے اور کوڑوں کا استعمال کر رہے ہیں اور اگست کے وسط سے اب تک چار لوگ جان سے جا چکے ہیں۔

رواں ہفتے طالبان جنگجوؤں نے کئی شہروں میں ہونے والے مظاہروں میں شرکا کو منتشر کیا جس میں فائرنگ میں دو شہری مارے گئے۔

شمداسانی نے کہا کہ ان کے دفتر کو یہ اطلاعات بھی ملی ہیں کہ گذشتہ ماہ ایک قومی پرچم اڑنے کی تقریب میں ایک شخص اور بچہ مارا گیا تھا جب طالبان نے ہجوم کو منتشر کرنے کی کوشش کی۔  

بدھ کو کم سے پانچ صحافیوں کو بھی گرفتار کیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

انہوں نے کہا صحافی اپنا کام کر رہے ہیں مگر انہیں ڈرایا جا رہا ہے۔

بدامنی کو روکنے کے لیے طالبان نے بدھ کو یہ اعلان بھی کیا کہ مظاہروں کے لیے وزرات انصاف سے پہلے اجازت نامہ لینا ہوگا۔ اس کے اگلے دن ہی ٹیلی کمیونیکشن کمپنیوں کو کابل کے کچھ علاقوں میں انٹرنیٹ اور فون سروس بند کرنے کا بھی حکم دیا گیا تھا۔

دوسری جانب ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ ملک میں 93 فیصد افراد کو خوارک کی مناست مقدار نہیں مل رہی۔

ادارے کی ایشیا پسیفک ریجنل ڈائریکٹر انتھیا ویب نے کہا: ’ملک کے 34 صوبوں میں اگست 21 سے ستمبر 5 کے درمیان کیے جانے والے رینڈم فون سروے میں معلوم ہوا کہ چار میں سے تین خاندان کھانے کی مقدار میں کمی کر رہے ہیں یا ادھار لے رہے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’والدین کھانا نہیں کھا رہے تاکہ بچوں کو پورا ہو سکے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ