پی آئی اے کے غیر ضروری شعبے ختم کرنے کا منصوبہ

وفاقی حکومت نے قومی ایئر لائن کو منافع بخش بنانے کے لیے دو نکاتی جامع منصوبے کا آغاز کر دیا۔

پی آئی اےکی انتظامیہ اپنے فلیٹ کو 30 جہازوں سے بڑھا کر 200 تک لے جانے کا پلان رکھتی ہے: ترجمان (اے ایف پی)

وفاقی حکومت نے قومی ایئر لائن پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کارپوریشن (پی آئی اے) کو ایک قابل عمل اور منافع بخش ادارہ بنانے کی غرض کئی اقدامات اٹھانے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ 

گذشتہ منگل کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پی آئی اے کی تنظیم نو پر بحث کے بعد ایک تفصیلی پلان کی منظوری دی گئی۔ 

وزیر اعظم کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات اور کفایت شعاری ڈاکٹر عشرت حسین نے پی آئی اے کی تنظیم نو کی منظوری کی تصدیق کرتے ہوئے ایک انٹرویو میں کہا: ’ منصوبہ کوئی بہت بڑا ہے، نہ کوئی بڑی تبدیلی لائی جا رہی بلکہ پی آئی اے کو چھوٹا اور زیادہ موثر بنانے کی کوشش کی جائے گی تاکہ 2023 تک یہ ایک منافع کمانے والا ادارہ بن جائے۔‘  

پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان نے کہا کہ پی آئی اے کے سامنے سب سے بڑا چیلنج اس کے 460 ارب روپے کے قرضے ہیں جن کی ادائیگی بہرصورت کرنا ہو گی۔

’اور نئی منصوبہ بندی اسی متعلق ہے کہ کس طرح پی آئی اے کی ان قرضوں سے گلو خلاصی کرائی جائے۔‘ 

واضح رہے کہ پی آئی اے 150 ارب روپے کی سالانہ آمدن کے ساتھ ہر سال 170 ارب روپے کا خسارہ برداشت کرتی ہے جس کی موجودگی میں قومی ایئر لائن کو منافع بخش ادارہ بنانا کسی صورت ممکن نظر نہیں آتا۔ 

عبداللہ حفیظ خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پی آئی اے کی موجودہ انتظامیہ نے ایئرلائن کا سالانہ خسارہ 140 ارب روپے تک کم کر دیا ہے۔

’اب بھی اتنے بڑے خسارے اور قرضوں کے ساتھ ادارے کو چلانا ایک مشکل بلکہ تقریباً ناممکن ٹاسک ہے۔‘ 

واضح رہے کہ پاکستان ایئر لائنز کارپوریشن گذشتہ کئی عشروں سے مالی بحران کا شکار ہے، جس پر قابو پانے کے لیے مختلف حکومتوں نے کئی اقدامات اٹھائے لیکن خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہو پائے۔ 

کئی برسوں سے ہوابازی کے شعبے سے منسلک ڈاکٹر ظفراللہ خان کا کہنا تھا کہ قومی ایئر لائن کا سب سے بڑا مسئلہ اہل، پیشہ ور اور ایمان دار انتظامیہ کا فقدان ہے۔  

تنظیم نو کا پلان ہے کیا؟ 

عبداللہ حفیظ خان نے قومی ایئر لائن کی تنظیم نو پلان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: اس مرتبہ دراصل پی آئی اے کی بیلنس شیٹ کی تنظیم نو کی جا رہی ہے، جس سے اخراجات کم ہوں گے اور منافع میں اضافے کی کوشش کی جائے گی۔  

انہوں نے کہا کہ موجودہ حالت میں اگر پی آئی اے کو بند بھی کر دیا جائے تو واجب الادا قرضے اپنی جگہ موجود رہیں گے، جو قومی ایئر لائن کو منافع بخش ادارہ بنانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔  

وفاقی حکومت نے پی آئی اے کی تنظیم نو کی منصوبہ بندی کی غرض سے ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی، جس نے گذشتہ منگل کو کابینہ کے سامنے ایک جامعہ پلان پیش کیا، جس کی بعض تبدیلیوں کے ساتھ منظوری دے دی گئی۔   

اس پلان کے مجموعی طور پر مندرجہ ذیل دو حصے ہیں:  

1۔ پی آئی اے کے واجب الادا قرضوں کی ادائیگی اور 

2۔ پی آئی اے کو منافع بخش ادارہ بنانے کے لیے اقدامات  

قرضوں کی ادائیگی 

انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود دستاویزات کے مطابق پی آئی اے پر مجموعی طور پر 457.1 ارب روپے کے قرضے واجب الادا ہیں، جو اس نے حکومت پاکستان کے علاوہ پاکستان سٹیٹ آئل (پی ایس او)، سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) اپنے ریٹائر ہونے والے ملازمین اور دوسرے اداروں کو ادا کرنا ہیں۔  

ڈاکٹر عشرت حسین کی کمیٹی نے پی آئی اے کی ان قرضوں سے جان چھڑانے کے لیے تجویز دی تھی کہ وفاقی حکومت ان تمام رقوم کی ادائیگی اپنے ذمہ لے لے۔ 

وفاقی کابینہ نے منگل کے اجلاس میں اس تجویز کی منظوری دے دی تھی تاہم بعض قانونی نکات پر بحث کے لیے پلان کو واپس معاشی رابطہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا۔ 

وفاقی وزارت خزانہ کے ایک سینیئر افسر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ضروری نہیں کہ وفاقی حکومت یہ ساری رقوم ادا بھی کرے۔ 

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس میں جو رقم (55.6 ارب روپے) پی آئی اے نے وفاقی حکومت سے قرض کے طور پر حاصل کی تھی اسے معاف کر دیا جائے گا، جبکہ پی ایس او (16.4 ارب روپے) اور سی اے اے (86.7 ارب روپے) کو واجب الادا رقوم بھی معاف کروائی جا سکتی ہیں۔ 

’پی آئی کے قرضوں کو اپنے ذمہ لے کر وفاقی حکومت قومی ایئر لائن کی بیلنس شیٹ پر سے یہ رقوم ہٹا دے گی اور خود بھی کوئی ادائیگی نہیں کرے گی۔‘ 

عبداللہ حفیظ خان نے کہا کہ ایک مرتبہ پی آئی اے کی واجب الادا قرضوں سے  جان چھوٹ جائے تو معاملات کافی حد تک بہتر ہونے کی امید ہے۔ 

پی آئی اے کو منافع بخش بنانے کے اقدامات 

قرضوں سے گلو خلاصی کے بعد پی آئی اے کی انتظامیہ کو ادارے کو زیادہ موثر اور منافع بخش بنانے کے اقدامات کرنا ہوں گے، جس کے لیے تنظیم نو پلان میں مندرجہ ذیل دو اہم نکات شامل کیے گئے ہیں۔ 

1۔ غیر ضروری شعبوں کی نج کاری 

2۔ غیر ضروری عملہ کم کرنا 

غیر ضروری شعبوں کی نج کاری 

تنظیم نو پلان میں پی آئی اے کی انتظامیہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ ادارے میں موجود شعبوں کو ضروری (core) اور غیر ضروری (non-core) خدمات کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے بعد غیر ضروری خدمات مہیا کرنے والے شعبوں کو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کر دیا جائے۔ 

کور یا ضروری شعبوں میں وہ شعبے شامل ہیں جو جہاز اڑانے اور اسے صحیح حالت میں رکھنے وغیرہ کا کام کرتے ہیں۔ ان میں پائلٹس، نیویگیٹرز، کیبن کریو، انجنیئرز اور دوسرا ضروری عملہ آتا ہے۔ 

دوسری طرف غیر ضروری (نان کور) شعبوں میں کم ضروری اور غیر تکنیکی یا کم تکنیکی خدمات  مہیا کرنے والے شعبے شامل ہیں، جن میں جہاز پر کھانا مہیا کرنا، جہازوں کے باتھ رومز کی صفائی اور دوسرے کئی شعبے ہو سکتے ہیں۔ 

پی آئی اے کے نان کور شعبہ جات میں دو ہزار سے زیادہ ملازمین ہیں، جو ان ڈیپارٹمنٹس کے نجی شعبے میں جانے سے قومی ایئر لائن کی ذمہ داری نہیں رہیں گے۔   

عبداللہ حفیظ خان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے نان کور خدمات نجی شعبے سے حاصل کر سکتا ہے یا دوسری صورت میں ان شعبہ جات کو پبلک پرائیوٹ جائنٹ ونچرز کے طور پر بھی چلایا جا سکتا ہے۔ ’واحد مقصد یہ ہے کہ پی آئی اے کے اخراجات کم سے کم ہو جائیں۔‘ 

غیر ضروری عملہ کم کرنا 

پی آئی اے دنیا کا واحد ایئر لائن ہے جو اپنے 30 جہازوں میں سے ہر ایک کے لیے تقریباً 500 ملازمین رکھتی ہے جبکہ فرانسیسی ایئر لائن کے ایل ایم میں یہ تعداد 150 اور سنگا پور ایئر لائن میں 141 ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر عشرت حسین کی کمیٹی نے پی آئی اے کی موجودہ انتظامیہ کو ادارے سے اضافی عملے کو کم کرنے کا ٹاسک بھی دیا۔ 

عبداللہ حفیظ خان نے دعویٰ کیا ہے کہ پی آئی اے کی موجودہ انتظامیہ پہلے ہی اضافی عملہ کم کرنے لیے اقدامات اٹھا رہی ہے اور 2015 میں قومی ایئر لائن کے 15 ہزار ملازمین کی تعداد کم ہو کر اب تقریباً 11 ہزار رہ گئی ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ نان کور ڈپارٹمنٹس کے نجی شعبے میں جانے سے پی آئی اے ملازمین کی تعداد پانچ سے چھ ہزار تک رہ جائے گی جو 30 جہازوں کے لیے بہت مناسب ہے۔  

انہوں نے مزید کہا کہ پی آئی اے میں نئی بھرتیاں 2015 سے روک دی گئی ہیں، جس سے ڈیڑھ ہزار نئے ملازمین نہیں شامل ہو رہے جبکہ جعلی ڈگریوں کے سلسلے میں انضباطی کاروائیوں کے تحت تقریبا دو ہزار دوسرے ملازمین اور والنٹری سیپریشن سکیم (وی ایس ایس) کے تحت 900 دوسرے ملازمین ادارے سے علیحدہ ہوئے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ مجموعی طور پر پی آئی اے کے ملازمین کی تعداد 40 سے 45 فیصد کم کر دی گئی ہے، جس سے ادارے کی کارکردگی پر مثبت اثرات پڑیں گے۔ 

نئے جہازوں کی خریداری 

عبدللہ حفیظ نے کہا کہ پی آئی اے نے نئے جہازوں کی خریداری کا ارادہ ترک کر دیا ہے، جس پر کووڈ 19 وبا کے بعد کاروبار بہتر ہونے کی صورت میں دوبارہ عمل کیا جا سکتا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کی انتظامیہ اپنے فلیٹ کو 30 جہازوں سے بڑھا کر 200 تک لے جانے کا پلان رکھتی ہے۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان