برطانوی وزیر اعظم لز ٹرس اپنے اقتدار کے محض چھ پریشان کن ہفتوں کے بعد ہی مستعفی ہونے پر مجبور ہو گئیں۔ آخر ایسی کیا وجوہات تھیں کہ ان کو مسندِ اقتدار اتنے کم وقت میں چھوڑنا پڑا، آئیں نظر ڈالتے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ملکہ برطانیہ کے جہانِ فانی سے کوچ کرنے کے 10 دن کے بعد سے ہی لزٹرس کی مشکلات میں اضافہ شروع ہوگیا۔
معاملے اس قدر طول پکڑ گیا کہ ان کے منی بجٹ کے پیش ہوتے ہی برطانوی وزیر اعظم کو اپنی وزیر خزانہ کی چھٹی کرنی پڑ گئی۔
اس معاملے پر جریدے دی اکانمسٹ نے تبصرہ کیا: ’یہ ہوتی ہے ایک گوبی کے پھول کی شیلف لائف۔‘
ٹرس نے کنزرویٹو پارٹی کے ارکان کی جانب سے 81,326 ووٹوں سے کامیابی حاصل کی، جبکہ رشی سنک کو 60,399 ووٹ ملے، جو سابق وزیر اعظم بورس جانسن کے دور میں وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔
لز ٹرس کو الیکٹوریٹ سے محض 0.2 فیصد ہی سپورٹ ملی، جس کے اگلے دن ہی ملکہ نے ان کو وزیر اعظم مقرر کر دیا۔ ٹرس نے بھی فوراً اپنے ہم خیال کواسی کارٹنگ کو وزیرخزانہ مقرر کر دیا۔
ٹرس نے یوکرین پر روس کے حملے کے تناظر میں گھریلو توانائی کے بلوں کو محدود کرنے کے لیے ایک مہنگی سکیم پیش کی، لیکن اس اعلان کو ملکہ کی موت سے گرہن لگ گیا، جس نے تمام سرکاری کاروبار کو 10 دن کے لیے معطل کر دیا۔
کارٹنگ نے ایک ’منی بجٹ‘ کا اعلان کیا جس میں توانائی کی سکیم کی قیمت 60 ارب پاؤنڈ اگلے چھ ماہ کے دوران تک کے لیے رکھی گئی لیکن فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں بتائے گئے۔
اس بڑے پیمانے پر ٹیکسوں میں کٹوتیوں کی ادائیگی کے لیے بڑے پیمانے پر نئے قرضے لینے کا اعلان کیا گیا۔
اس اعلان کو سیاسی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور غیر منصفانہ قرار دیا گیا لیکن سب سے زیادہ چونکا دینے والا دباؤ پاؤنڈ اور ڈالر کے موازنے میں قدر میں کمی بن کر سامنے آتا ہے۔
اس کے بعد کوارٹنگ نے ٹیکس میں مزید کٹوتیوں کا عندیہ دے دیا جس کے بعد پاؤنڈ میں زیادہ گراوٹ دیکھی گئی۔
اس بجٹ کے بعد سے ٹرس اور کارٹنگ میں تناؤ دیکھا گیا اور ساتھ ہی بینک آف اگلینڈ نے 65 ارب پاؤنڈ کا لمبے عرصے تک کے لی بانڈز خریدنے کے لیے دو ہفتوں پر محیط پلان بھی متعارف کروادیا تاکہ ’مارکیٹ کے حالات میں توازن‘ لایا جاسکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹرس اور کارٹنگ کو ایک ذلت آمیز یو ٹرن لینے پر مجبور ہونا پڑا، اور بات چیت کے بعد انکم ٹیکس کی اعلیٰ شرح میں منصوبہ بندی کے تحٹ کٹوتی کو ختم کرنا پڑا۔
پانچ اکتوبر کو اپنی کانفرنس کی تقریر میں، ٹرس نے اپنے ’ترقی، ترقی، ترقی‘ کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا عہد کیا لیکن وہ پارٹی کے باغیوں اور اعصاب شکن مارکیٹوں کو یقین دلانے میں ناکام رہی۔
مارکیٹوں میں ہلچل مچنے اور ٹرس پر دباؤ بڑھنے کے بعد وزیراعظم نے صرف 38 دن کے بعد کوارٹنگ کو برطرف کردیا۔ جس کے بعد انہوں نے سابق وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ کا انتخاب کیا۔
اس کے بعد ہی وزیر داخلہ سویلا بریومین نے بھی امیگریشن کے معاملے میں تلخی پر استعفیٰ دے دیا۔
اس کے بعد پارلیمان کے ووٹ کے ذریعے منحرف ٹوری اراکین پر زور دیا گیا کہ وہ حکومت اور ٹرس کو سپورٹ کریں مگر ووٹ جیتنے کے باوجود اراکین انحراف کر گئے۔
اس سب صورت حال کے باعث لز ٹرس کو بالآخر منصب کو چھوڑنا پڑا اور نتیجہ آج سب کے سامنے ان کے استعفے کی صورت میں آیا۔