برازیل الیکشن: لولا ڈا سلوا تیسری بار اقتدار کی باگ ڈور سنبھالیں گے

شکست خوردہ 67 سالہ بولسونارو نے نتائج کے اعلان کے چند گھنٹوں بعد تک کوئی بیان نہیں دیا تھا۔

برازیل کے نومنتخب صدر لوئیز اناسیو لولا ڈا سلوا 30 اکتوبر 2022 کو ساؤ پاؤلو میں صدارتی رن آف الیکشن جیتنے کے بعد پالسٹا ایونیو میں حامیوں سے خطاب کر رہے ہیں (اے ایف پی)

برازیل کے نو منتخب صدر لوئیز اناسیو لولا ڈا سلوا نے اتوار کو ہونے والے انتخابات میں انتہائی کم ووٹوں کی برتری سے  دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اپنے حلیف جیئر بولسونارو کو شکست دینے کے بعد ’امن اور اتحاد‘ پر زور دیا۔

فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق انتخابی عہدیداروں کے اعلان کردہ نتائج کے مطابق  99.9 فیصد سے زیادہ پولنگ سٹیشنوں کے نتائج اکے حساب سے لوئیز اناسیو لولا ڈا سلوا نے 50.9 فیصد ووٹ حاصل کیے اور جیئر بولسونارو کو 49.1 فیصد ووٹ ملے۔

بولسونارو کو سخت گیر، قدامت پسند، ’ٹروپیکل ٹرمپ‘ کہا جاتا ہے۔ وہ پہلے ایسے صدر بن گئے ہیں جو آمریت کے بعد کے دور میں دوبارہ انتخاب نہیں جیت سکے۔

67 سالہ بولسونارو نے نتائج کے اعلان کے چند گھنٹوں بعد تک کوئی بیان نہیں دیا تھا۔

امریکی صدر جو بائیڈن، فرانس کے ایمانوئل میکرون، کینیڈا کے جسٹن ٹروڈو اور لاطینی امریکہ کے متعدد رہنماؤں سمیت دیگر کی جانب سے انہیں مبارکباد دی گئی۔

 لوئیز اناسیو لولا ڈا سلوا نے 2010 میں برازیل کی تاریخ میں سب سے زیادہ مقبول صدر کی حیثیت سے عہدہ چھوڑ دیا تھا، پھر انہیں کرپشن کے متنازعہ الزامات پر 18 ماہ تک قید میں رکھا گیا، اور اب وہ 77 سال کی عمر میں تیسری مدت کے لیے واپس آ رہے ہیں۔

انتخابات میں فتح کے بعد برازیل کے شہر ساؤ پالو میں تقریر کرتے ہوئے نومنتخب صدر نے کہا، ’اس ملک کو امن اور اتحاد کی ضرورت ہے۔ برازیل کے عوام اب مزید لڑنا نہیں چاہتے۔

’یہ کسی کے مفاد میں نہیں ہے کہ وہ ایک منقسم قوم رہیں جو مستقل حالت جنگ میں ہو۔‘

اے ایف پی کے مطابق اب سب کی نظریں اس بات پر ہوں گی کہ جیئر بولسونارو اور ان کے حامی انتخابات کے اس نتیجے پر کیا رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔ وہ کئی ماہ سے بغیر کسی ثبوت کے یہ الزام لگا رہے ہیں کہ برازیل کا الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم دھوکہ دہی کا شکار ہے اور عدالتوں، میڈیا اور دیگر اداروں نے ان کی انتہائی دائیں بازو کی تحریک کے خلاف سازش کی ہے۔

اس بات سے قطع نظر کہ موجودہ صدر کا رد عمل کیا ہے، اقتدار میں آنے کے پہلے دن سے ہی انہیں مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہیں کو وراثت میں ایک گہرا منقسم ملک ملا ہے، جہاں ایک بہت ہی مشکل عالمی معاشی صورت حال ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بولسونارو کے انتہائی دائیں بازو کے اتحادیوں نے دو  اکتوبر کو پہلے مرحلے کے انتخابات میں قانون سازی اور گورنروں کی دوڑ میں بڑی کامیابیاں حاصل کیں، اور وہ کانگریس میں بھاری اکثریت سے ہوں گے۔

نومنتخب صدر نے فتح کے بعد اپنی پہلی تقریر میں صنفی اور نسلی مساوات کے علاوہ تین کروڑ31 لاکھ برازیلیوں کو متاثر کرنے والے بھوک کے بحران سے نمٹنے کی فوری ضرورت پر بھی بات کی۔

انہوں نے کہا، ’آج ہم دنیا کو بتاتے ہیں کہ برازیل واپس آ گیا ہے۔ آب و ہوا کے بحران، بالخصوص ایمازون میں،  کے خلاف جنگ میں اپنی جگہ دوبارہ حاصل کرنے کے لیے تیار ہے۔‘

امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ اینٹنی بلنکن نے لولا کو مبارک باد دہتے ہوئے کہا کہ وہ برازیل کے ساتھ جمہوری طرز کے تعلقات کے خواہاں ہیں۔

دارالحکومت برازیلیا میں بولسونارو کے ایک حامی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’مجھے امید ہے کہ صدر جنرلوں سے ملاقات کریں گے۔‘

57 سالہ دانتوں کے ڈاکٹر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر برازیل کی مبینہ طور پر مخالف عدالتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں امید ہے کہ حالات کسی بھی وقت تبدیل ہو جائیں گے۔‘

50 سالہ ٹیچر روتھ ڈا سلوا باربوسا کا کہنا تھا کہ ’برازیل کے عوام جعلی انتخابات کو قبول کر کے ہمارے ملک کو چور کے حوالے نہیں کریں گے۔‘

ایک 34 سالہ ڈویلپر، لاریسا مینیسز نے ساؤ پالو میں ایک پر مسرت فتح پارٹی میں اے ایف پی کو بتایا، ’ برازیل چار سال کے اندھیرے کے بعد ایک بار پھر ابھرنا شروع ہوگیا ہے۔ ہم بہت سے مسائل سے گزر رہے تھے، بہت زیادہ خوف۔

’اب لولا کی جیت سے، مجھے واقعی یقین ہے کہ چیزیں بہتر ہونا شروع ہو جائیں گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا