امریکی فوجی ڈرون کی 908 دن مدار میں رہنے کے بعد زمین پر واپسی

امریکی فوج کا کہنا ہے کہ ڈرون مشن کا مقصد یہ جانچ کرنا تھا کہ بعض مادوں کا خلا میں کیا ردعمل ہوتا ہے تا کہ اندازہ لگایا جا سکے کہ خلا میں موجود تابکاری دھاتوں پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے۔

کینیڈی سپیس سینٹر، فلوریڈا کا تین نومبر 2022 میں ایک منظر (اے ایف پی)

امریکی طیارہ ساز کمپنی بوئنگ نے کہا ہے کہ امریکی فوج کا خلائی ڈرون مدار میں تقریباً ڈھائی سال تک رہنے کے بعد ریاست فلوریڈا میں کینیڈی سپیس سینٹر میں زمین پر اتر گیا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بوئنگ نے ایک بیان میں بتایا ہے کہ ایکس۔37 بی نامی ڈرون میں عملے کا کوئی رکن سوار نہیں تھا۔

اس نے پہلی پرواز 2010 میں کی اور اب تک مجموعی طور پر 10 سال سے زیادہ عرصہ خلا میں گزار چکا ہے۔ ڈرون نے چھ مشنوں میں مجموعی طور پر  ایک ارب 30 کروڑ میل کا سفر کر چکا ہے۔

خلائی آپریشنوں کے سربراہ جنرل چانس سالٹزمین کا کہنا ہے: ’اس مشن سے ایئر فورس کے ادارے کے اندر اور باہر خلا میں تحقیق اور ہمارے شراکت داروں کی خلا تک کم اخراجات کے ساتھ رسائی پر سپیس فورس کی توجہ کا مرکوز ہونا واضح ہوتا ہے۔‘

ایکس۔37 بی کو خفیہ طور پر مشن پر روانہ کیا گیا تھا۔ یونائیٹڈ لانچ الائنس نے یہ خلائی ڈرون ایئر فورس کے لیے تیار کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یونائیٹڈ لانچ الائنس بوئنگ اور لاک ہیڈ مارٹن کا مشترکہ منصوبہ ہے۔

ڈرون کی طوالت 30 فٹ (نو میٹر) ہے۔ اس کے پروں کی لمبائی 15 فٹ ہے اور اس پر سولر پینل لگے ہوئے ہیں۔

شٹل کی لانچ سے پہلے مئی 2020 میں امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے متعدد سائنسی تجربات کرنے کا اعلان کیا تھا۔

امریکی فوج کا کہنا ہے کہ ڈرون مشن کا مقصد یہ جانچ کرنا تھا کہ بعض مادوں کا خلا میں کیا ردعمل ہوتا ہے تا کہ اندازہ لگایا جا سکے کہ خلا میں موجود تابکاری دھاتوں پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے۔

تجربے کا مقصد سورج کی تابکاری کو ریڈیو الیکٹرک توانائی میں تبدیل کرنا بھی تھا۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس ڈرون کا پچھلا مشن 780 دنوں پر مشتمل تھا۔

اس تجربے میں فیلکن سیٹ 8 نامی سیٹلائٹ کو اکیڈمی کے کیڈٹس نے ایئر فورس ریسرچ لیبارٹری کے اشتراک کے ساتھ بنایا اور ڈیزائن کیا تھا۔

جبکہ ایک اور تجربے نے بیجوں پر طویل مدتی خلائی اثرات کا جائزہ بھی لیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس