مزید بچے کیوں پیدا کریں جب ملازمتیں نہیں؟ چینی شہری

اقوام متحدہ کو توقع ہے کہ اگلے سال سے چین کی آبادی کم ہونا شروع ہو جائے گی جب کہ بھارت ممکنہ طور پر دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔

12 مئی 2021 کو بیجنگ میں ایک خاتون اپنے بچے کے ساتھ (اے ایف پی)

ہانگ کانگ کی یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے پروفیسر سٹوارٹ جیٹل باسٹن کا موقف ہے کہ ’آپ مزید بچے کیوں پیدا کریں گے جب کہ وہ لوگ جو پہلے سے موجود ہیں، وہ ملازمت تک حاصل نہیں کر سکتے؟‘

ان کا کہنا ہے کہ ’نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع اہمیت کے حامل ہیں۔‘

بیجنگ کے مضافات میں چینی سافٹ ویئر ڈیویلپر تانگ ہوا جن بھی اپنے دو سالہ بچے کے ساتھ کھیلنا پسند کرتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان کے ہاں کسی اور بچے کی پیدائش کا امکان نہیں ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق چین میں لاتعداد لوگوں کے اس طرح کے فیصلے نہ صرف چین بلکہ پوری دنیا کی آبادی کے لیے راستے کا تعین کریں گے۔

39 سالہ تانگ نے کہا کہ ان کے بہت سے شادی شدہ دوستوں کا صرف ایک بچہ ہے اور ان کی طرح وہ مزید کوئی منصوبہ بندی نہیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نوجوان لوگ شادی کرنے میں ہی دلچسپی نہیں رکھتے، بچے پیدا کرنے کو تو چھوڑ دیں۔

 بچوں کی مہنگی دیکھ بھال چین میں بچے پیدا کرنے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ مسلسل متحرک ہوتے معاشرے میں بہت سے خاندان مدد کے لیے دادا دادی پر بھروسہ کرنے سے قاصر ہیں جو ہو سکتا ہے کہ بہت دور رہتے ہوں۔

 تانگ کے بقول: ’ایک اور وجہ یہ ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کی شادی بہت دیر سے ہوتی ہے اور خاتون کا حاملہ ہونا مشکل ہوجاتا ہے۔ میرے خیال میں دیر سے شادی کرنے کا بچوں کی پیدائش پر یقیناً اثر پڑے گا۔‘

چین میں کئی دہائیوں سے آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا۔ چین نے آبادی میں اضافے کو قابو میں رکھنے کے لیے 1980 سے 2015 تک ایک بچے کی پالیسی نافذ کر دی۔ لیکن اب اقوام متحدہ کو توقع ہے کہ اگلے سال سے چین کی آبادی کم ہونا شروع ہو جائے گی جب کہ بھارت ممکنہ طور پر دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔

2021  میں چین کی آبادی میں اضافے کی شرح 1.16 تھی جو معاشی تعاون اور ترقی کے ادارے (او ای سی ڈی) کے مقرر کردہ مستحکم آبادی کے 2.1 کے معیار سے کم تھی۔ اس طرح چین ان ملکوں میں شامل تھا جہاں زرخیزی کی شرح کم ترین تھی۔

آبادیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے وبائی مرض سے ہونے والی پریشانی اور وبا پر قابو پانے کے لیے چین کے سخت اقدامات نے بھی بہت سے لوگوں کی اولاد پیدا کرنے کی خواہش پر گہرا اثر ڈالا ہے۔

چین میں بچوں کی پیدائش اس سال ریکارڈ کم ترین سطح پر آنے والی ہے۔ ماہرین آبادی کہتے ہیں کہ بچوں کی پیدائش ایک کروڑ سے کم ہو جائے گی جب کہ گذشتہ سال ایک کروڑ چھ لاکھ بچے پیدا ہوئے۔ یہ شرح 2020 کی 11.5 کی شرح سے پہلے ہی کم تھی۔

گذشتہ سال بیجنگ نے جوڑوں کو تین تک بچے پیدا کرنے کی اجازت دے دی اور حکومت نے کہا کہ وہ مناسب شرح پیدائش کا ہدف حاصل کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔

پرانے لوگ نئے مسائل

منصوبہ سازوں کے نزدیک سکڑتی ہوئی آبادی نے نئے مسائل کھڑے کر دیے ہیں۔

ہانگ کانگ کی چینی یونیورسٹی کے پروفیسر شین جیانفا کا کہنا ہے کہ ’ہمیں توقع ہے کہ زیادہ عمر والی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو گا۔ یہ بہت اہم صورت حال جس کا چین کو سامنا ہے۔ یہ صورت حال اس سے مختلف ہے جو 20 سال تھی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چین میں 65 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کی آبادی کا تناسب 13 فیصد کے لگ بھگ ہے لیکن اس میں تیزی سے اضافہ ہو گا۔ کم ہوتی افرادی قوت پر تعداد میں زیادہ ہوتے معمر افراد کی دیکھ بھال کے بوجھ میں اضافہ ہو گا۔

شین نے آبادی کے معمر افراد کے تناسب کے حوالے سے کہا کہ ’کچھ سالوں تک ان کی تعداد بہت زیادہ ہو گی۔ اس لیے ملک کو آنے والی صورت حال کے لیے تیار رہنا ہو گا۔‘

عمر رسیدہ معاشرے کے امکانات سے گھبرا کر چین ان جوڑوں کو ٹیکس میں چھوٹ، نقد رقم، زچگی کی چھٹی، میڈیکل انشورنس اور ہاؤسنگ سبسڈی دے کر ان کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے تا کہ وہ زیادہ بچے پیدا کریں۔

لیکن آبادی  کےماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات کافی نہیں ہیں۔ انہوں نے اعلی تعلیم کے اخراجات، کم اجرت اور کام کے بدنام زمانہ طویل اوقات کا حوالہ دیا اور ساتھ ہی کوویڈ کی روک تھام کے لیے کیے گئے اقدامات اور معیشت کی مجموعی حالت پر مایوسی کا اظہار بھی کیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا