ماحولیات پر عالمی اجلاس: انڈیا اور چین کی غیر حاضری کتنی اہم؟

ان رہنماؤں کی غیر حاضری زیادہ حیران کن ہو جاتی ہے کیوں کہ مذاکرات کار اگلے ہفتے کے اوائل میں شرم الشیخ میں توانائی کی منتقلی کے لیے سر جوڑ کر بیٹھیں گے۔

انڈین وزیر اعظم نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان ووہان میں ہونے والی ملاقات کی یہ تصویر 27 اپریل 2018 کو انڈین وزارت خارجہ کی جانب سے ریلیز کی گئی تھی۔ انڈیا اور چین دونوں ہی ماحولیات پر ہونے والے اجلاس کوپ 27 سے غائب ہیں (اے ایف پی/ انڈین وزارت خارجہ)

ماحولیات کے تحفظ پر اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس کوپ 27 کے افتتاحی روز عالمی رہنماؤں نے بڑی بڑی تقاریر اور اعلانات کیے، تاہم دنیا میں آلودگی پیدا کرنے والے دو سب سے بڑے ممالک میں شامل انڈیا اور چین کے سربراہان مملکت کی آوازیں سنائی نہیں دیں۔

انڈیا، چین اور امریکہ کے بعد آلودگی پھیلانے والا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے، جس کے وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی آبائی ریاست گجرات میں انتخابات کی مہم چلانے کو ترجیح دی اور سربراہی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے، حالانکہ یہ ملک حالیہ موسمی تبدیلی کے بدترین اثرات سے دوچار ہے۔

ادھر چینی صدر شی جن پنگ نے بھی رواں سال ہونے والے سربراہی اجلاس کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔

روس، جو آلودگی پھیلانے والا چوتھا سب سے بڑا ملک ہے، یوکرین کی جنگ کے بعد پہلے سے ہی بین الاقوامی تنقید کی زد میں ہے اور ولادی میر پوتن مصر کے تفریحی مقام شرم الشیخ سے بھی غیر حاضر رہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن آٹھ نومبر کو ہونے والے امریکی وسط مدتی انتخابات کی مصروفیات سے ٹکراؤ کی وجہ سے مصر نہیں پہنچے لیکن توقع ہے کہ وہ اگلے ہفتے شرم الشیخ کا سفر کریں گے۔

ان تمام ممالک کی نمائندگی ان کے ماحولیات کے وزرا کر رہے ہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک سربراہی اجلاس میں ترقی پذیر دنیا کے بڑے ناموں کی عدم موجودگی کوپ 27 کی چمک دھمک کو ماند کر رہی ہے اور وہ بھی اس وقت جب اجلاس میں کرہ ارض کو گرم کرنے والی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے اور آفات کے متاثرین کو اہم مدد فراہم کرنے سے متعلق کچھ بڑے سوالات پر بحث ہو رہی ہے۔

تھنک ٹینک E3G سے وابستہ ٹام ایونز نے شرم الشیخ میں اس حوالے سے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’انڈیا کی غیر موجودگی قابل ذکر ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب گذشتہ سال کے مقابلے میں وزیراعظم مودی نے 2030 کے موسمیاتی اہداف کو پورا کرنے اور کاربن کے صفر اخراج کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ ان کو کوپ 26 میں نمایاں طور پر دیکھا گیا تھا لیکن اس سال اب تک انڈیا کی عدم دلچسپی نمایاں رہی۔‘

گذشتہ سال انڈیا نے پہلی بار 2070 تک کاربن کے صفر اخراج کے ہدف کا اعلان کیا تھا، جو زیادہ تر ممالک کے مقابلے میں دو دہائیوں کی تاخیر سے ہے لیکن اس نے اپنی پوزیشن میں ایک بڑی تبدیلی کا اشارہ دیا ہے۔

اس سال کے سربراہی اجلاس سے پہلے انڈیا نے اپنے قابل تجدید توانائی اور اخراج میں کمی کے اہداف کو اپنے قومی سطح پر طے شدہ اہداف میں شامل کیا۔

ان رہنماؤں کی غیر حاضری زیادہ حیران کن ہو جاتی ہے کیوں کہ مذاکرات کار اگلے ہفتے کے اوائل میں شرم الشیخ میں توانائی کی منتقلی کے لیے سر جوڑ کر بیٹھیں گے۔

انڈیا اور چین کوئلے کے سب سے بڑے پیداوار اور صارفین میں سے ایک ہیں، جو پچھلے چند سالوں میں قابل تجدید ذرائع کے میدان میں متاثر کن پیش قدمی کے باوجود فوسلز ایندھن پر زیادہ انحصار کر کے زیادہ تباہ کن اثرات پیدا کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم انڈیا کے وزیر ماحولیات منگل کو ہی ملک واپس چلے گئے ہیں۔ انڈین حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر ماحولیات اگلے ہفتے سربراہی اجلاس میں واپس آ سکتے ہیں، لیکن اگر بڑے نام غیر حاضر رہتے ہیں تو ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بات چیت سے کوئی خاطر خواہ پیش رفت ہو سکے گی یا نہیں۔

تھنک ٹینک کلائمیٹ ایکشن نیٹ ورک (سی اے این) میں عالمی سیاسی حکمت عملی کے سربراہ ہرجیت سنگھ کے مطابق: ’نئی دہلی کو اپنی پیشرفت کے اظہار کے لیے اجلاس میں موجود ہونا چاہیے تھا خاص طور پر جب انڈیا قابل تجدید توانائی کی طرف بڑھنے کے معاملے میں بہت کچھ کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس قسم کے اہم اہداف اس نے طے کیے ہیں۔‘

انڈیا نے کوپ 27 کے ایجنڈے میں شامل موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں کمزور ممالک میں ہونے والے نقصان اور تباہی کے تناظر میں ان کو ادائیگی کی تاریخی پیش رفت پر بھی بڑی حد تک خاموشی اختیار کر رکھی ہے، جس کی انڈیا G77 گروپ کے ایک رکن کے طور پر حمایت کرتا ہے۔

ہرجیت سنگھ کہتے ہیں: ’جس طرح سے سیاسی طور پر دنیا بھر میں نقصان کے ازالے کو ترجیح دی گئی ہے اس کے پیش نظر انڈیا کے لیے یہ اچھا ہوتا کہ وہ بھی اپنی حمایت اور عوامی طور پر قرض فراہم کرتا۔‘

ان کے بقول: ’یہ اس اجلاس کے نکتہ نظر کے لحاظ سے سب سے اہم ہے اور انڈیا کے لیے موسمیاتی نقصان اور تباہی کے لیے امداد کا مطالبہ کرنے کے لیے کمزور ممالک کے ساتھ یکجہتی میں کھڑا ہونا انتہائی اہم ہے۔‘

تاہم نئی مالیاتی سہولت کے لیے انڈیا اور چین جیسے ترقی پذیر ممالک کو مضبوط بنانے کے مطالبات بھی بڑھ رہے ہیں۔

چین اور انڈیا نے ہمیشہ تاریخی طور پر کاربن کے اخراج کو مدنظر رکھنے کا مطالبہ کیا ہے اور ترقی یافتہ مغربی ممالک اس فہرست میں سب سے اوپر ہیں۔

لیکن چھوٹے جزیروں پر مشتمل ممالک مطالبہ کر رہے ہیں کہ تمام آلودگی پھیلانے والوں کو آب و ہوا کے معاوضے کی ادائیگی کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔

یہ معاملہ آنے والے دنوں میں گمبھیر ہونے والا ہے کیونکہ مذاکرات میں گرما گرمی دیکھی جا رہی ہے۔

اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہ وہ اپنا حصہ ڈالنے کے لیے تیار ہے چین نے نجات دہندہ بننے کی کوشش کی ہے لیکن انڈیا نے ابھی تک اس مسئلے کو سرکاری طور پر حل نہیں کیا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق چین کے موسمیاتی نمائندے ژی جین ہوا نے کہا ہے کہ ’یہ (نقصان اور نقصان کی ادائیگی) چین کی ذمہ داری نہیں ہے لیکن ہم اپنا حصہ ڈالنے اور اپنی کوششیں کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘

اس حوالے سے فنڈ کے قیام میں کم از کم دو سال باقی ہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی رہنما ان سوالات سے منہ نہیں موڑ کر سکیں گے۔

ایونز کہتے ہیں: ’ہو سکتا ہے کہ مودی مصر نہ آئیں لیکن وہ اگلے ہفتے ہونے والے جی 20 سربراہی اجلاس میں ماحولیات کے ایجنڈے کو ختم نہیں کر پائیں گے، کم از کم اس لیے کہ انڈیا اگلے سال اس بلاک کی صدارت سنبھال لے گا۔‘

ان کے بقول: ’اگلے ہفتے بالی میں ہونے والے اجلاس میں مودی پر امریکہ اور یورپی یونین کی طرف سے موسمیاتی نتائج کی حمایت کرنے کے لیے دباؤ ہو گا جو ستمبر میں موحولیاتی وزرا کے اجلاس میں آگے بڑھیں گے، جس پر وہ اس سے قبل کسی مکالمے کے دوران متفق نہیں ہو سکے تھے۔‘

ایونز نے مزید کہا کہ کوپ 27 میں انڈیا کی طرف سے مضبوط پوزیشن ’اگلے سال G20 کی میزبانی سے پہلے حقیقی قیادت کا مظاہرہ‘ ہو سکتی تھی۔

یہ تحریر کلائمیٹ ٹریکر کی کوپ 27 کلائمیٹ جسٹس جرنلزم فیلو شپ کی مدد سے شائع کی گئی ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات