سوات: بدھا کے مجسمے کو نشانہ بنانے والا ٹک ٹاکر قانون کی گرفت میں

تھانہ منگلور کے مطابق 16 سالہ نوجوان ابوبکر کو گزشتہ روز عدالت کے سامنے پیش کرنے کے بعد جیل بھجوایا گیا۔ نوادرات ایکٹ 18 ضمن (1) کے تحت انہیں 20 لاکھ جرمانہ یا پانچ سال قید یا دونوں سزائیں اکٹھی ہو سکتی ہیں۔

26 اپریل 2018، سوات، جہان آباد میں واقع بدھا (اے ایف پی)

خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں بدھا مجسمے کو نشانہ بنانے پر نوجوان ٹک ٹاکر کو گرفتار کیے جانے کے بعد جیل بھجوا دیا گیا ہے۔

تھانہ منگلور کے مطابق 16 سالہ نوجوان ابوبکر کو گزشتہ روز عدالت کے سامنے پیش کرنے کے بعد جیل بھجوایا گیا۔

سوات پولیس کے مطابق نوادرات ایکٹ 18 ضمن (1) کے تحت انہیں  20 لاکھ جرمانہ اور پانچ سال قید یا دونوں سزائیں اکٹھی ہو سکتی ہیں۔

تفصیلات کے مطابق 11 نومبر 2022 کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک نوجوان سوات کے علاقے جہان آباد میں چٹان پر مراقبہ کی حالت میں کندہ شدہ بدھا کے مجسمے پر پتھر پھینکتے ہوئے اپنے اس عمل کی ویڈیو بنا رہے تھے، بعد ازاں انہوں نے ازخود یہ ویڈیو فیس بک اور ٹک ٹاک پر پوسٹ بھی کی۔

ویڈیو پوسٹ ہونے کے بعد نہ صرف تاریخی پس منظر سے باخبر صارفین بلکہ ضلع سوات کے رہائشیوں نے بھی اس پر غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے نوجوان کو گرفتار کرنے سمیت مجسمے کی حفاظت پر مامور چوکیدار کو بھی قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔

چوکیدار ڈیوٹی سے غیرحاضر ہونے کے سبب ملزم کو اس فعل سے نہ روک سکے۔

تھانہ منگلور کے سٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) حیات محمد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ عوامی دباؤ کے نتیجے میں انہوں نے فوری کارروائی کرتے ہوئے ابوبکر کو گرفتار کرکے اپنی مدعیت میں ایف آئی آر بھی درج کی۔

انہوں نے ایف آئی آر کی نقل انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ شریک کرتے ہوئے کہا کہ ’ملزم سوات کے ایک گاؤں سنگوٹہ کا رہائشی ہے۔ ہم نے ویڈیو دیکھی تو اس میں صاف ظاہر تھا کہ اس نے مجسمے کو نقصان پہنچانے کی غرض سے پتھرپھینکے تھے۔‘

ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ ابتدائی تفتیش کے بعد یہ بھی معلوم ہوا کہ تمام واقعہ لاعلمی اور شعور کی کمی کا شاخسانہ ہے‘ تاہم انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ کوئی خبر سوشل میڈیا پر پھیلتی ہے تو وہاں ہر مذہب، فرقے، سوچ اور ذہنیت کے لوگ ہوتے ہیں، جو ارباب اختیار پر نتائج مرتب کرنے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں۔

ایف آئی آر میں خیبر پختونخوا نوادارات ایکٹ اٹھارہ ضمن (1)  کا دفعہ لگایا گیا ہے، جس کی سزا بیس سال قید، پانچ لاکھ جرمانہ یا دونوں ہوسکتے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے ابوبکر کے والد سے ٹیلیفونک رابطہ کیا تو انہوں نے تفصیلات سے لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے فقط اتنا کہا کہ وہ ایک دیہاڑی دار مزدور ہیں اور یہ کہ ان کے ’بیٹے سے غلطی ہوئی ہے، اتنی بڑی سزا کا وہ مستحق نہیں ہے۔‘

ابوبکر کے بہنوئی امیرزاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے سسرال والے نہایت غریب لوگ ہیں، اور ابوبکر اسی وجہ سے پرائمری سے آگے نہ پڑھ سکے۔

’ابوبکر کی والدہ عارضہ قلب میں مبتلا ہیں۔ انہیں جیسے ہی واقعے کا علم ہوا وہ بیہوش ہو گئیں۔ ابوبکر سے میری حوالات میں ملاقات ہوئی تو وہ سہما ہوا تھا۔ وہ اپنی غلطی پر نادم اور پشیماں تھا۔ لیکن ایک تو کم عمری ہے اور دوسرا لاعلمی بھی تھی، ورنہ کیوں کرتا ایسا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امیرزادہ نے کہا کہ بدھا کا مجسمہ ان کے گھر سے آدھے گھنٹے کی مسافت پر ہے، جہاں ان کے برادر نسبتی دوستوں کے ساتھ سیر کی غرض سے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’ابوبکر کا مقصد تھا کہ اس فعل کو اگر وہ سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرے گا تو مشہور ہو جائے گا۔ تاہم اس کو معلوم نہ تھا کہ یہ فعل اس کو اور اس کے خاندان کواس قدر بڑی مصیبت میں ڈال دے گا۔‘

پشاور یونیورسٹی شعبہ آرکیالوجی کے پروفیسر قاضی نعیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 2007 میں دہشت گردی کے دوران متذکرہ مجسمے کو دہشت گردوں نے کافی نقصان پہنچایا تھا جس پر پوری دنیا سے خصوصاً بدھ مت کے پیروکار ممالک نے شدید غم وغصے کا اظہار کیا تھا۔ ’تاہم بعدازاں اٹلی کے آرکیالوجیکل مشن نے اس کی دوبارہ مرمت کی، جس کے لیے پاکستان ان کا ممنون رہا۔‘

’اس مشن کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر لوکی ماریہ الویری نے اس میں خصوصی دلچسپی لی اور مجسمے کے جتنے ٹکڑے مار گرائے گئے تھے، ان تمام کو اکٹھا کیا۔ اس جدوجہد کے دوران پرویز شاہین جو ایک گورنمنٹ سکول سے ریٹائرڈ پرنسپل ہیں، انہوں نے یہ ٹکڑے اکھٹے کرنے میں بہت مدد کی تھی۔ اور اس طرح 2012 میں یہ مرمت ممکن ہوئی۔‘

پروفیسر قاضی نعیم نے مزید بتایا کہ ’یہ روایتی گندھارا سٹائل میں تعمیر کیا گیا مجسمہ ہے جس کی مقامی لوگوں کو اہمیت معلوم نہیں ہے۔ بلکہ اکثر اس کے پتھر اور آرائشی اشیا گھروں میں لے جا کر نصب کردیتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان