بدھا کے آثار محفوظ کرنے کے لیے بڑی چٹانوں کو منتقل کرنے کا منصوبہ

ہزاروں کی تعداد میں موجود تاریخی آثار کو محفوظ کرنے کی خاطر حکومت پاکستان نے چلاس میں اوپن ایئر عجائب گھر بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

گلگت بلتستان میں شاہراہ قراقرم کے دونوں جانب ایک بڑے علاقے میں یہ قدیم آثار موجود ہیں۔

دیا میر بھاشا ڈیم پاکستان میں توانائی اور پانی کے مسائل حل کرنے میں یقیناً مفید ثابت ہو گا۔ تاہم اس کی کئی کلو میٹر پر محیط جھیل میں بدھ مت کے زمانےکے پتھروں اور چٹانوں پر بنے نقوش اور تحریروں کے ایک بڑے ذخیرے کے ڈوب جانے کا خدشہ ہے۔

ہزاروں کی تعداد میں موجود ان تاریخی آثار کو محفوظ کرنے کی خاطر حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان کے علاقے چلاس میں عجائب گھر بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

چین نے بھی ڈیم کے پانی کی زد میں آنے والے پاکستان کے اس قومی ورثے کو محفوظ بنانے کے لیے مدد کی پیشکش کی ہے۔ اس سلسلے میں چند روز قبل اسلام آباد میں چینی ثقافتی کونسلر جانگ ہیکنگ نے سیکریٹری قومی ورثہ اور ثقافت ڈویژن نوشین جاوید سے ملاقات میں بیجنگ کی طرف سے چلاس میں عجائب گھر بنانے کے لیے تعاون اور مالی امداد کی یقین دہانی کرائی۔

اسلام آباد میں قومی ورثہ اور ثقافت ڈویژن کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر سید محمود الحسن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چلاس میں ایک کھلا عجائب گھر (اوپن ایئر میوزیم) بنائے جانے کامنصوبہ ہے، جس میں ڈیم کی وجہ سے متاثر ہونے والے آثار قدیمہ کو رکھا جائے گا۔

انہوں نے امکان ظاہر کیا کہ مستقبل میں کسی مرحلے پر اس عجائب گھر کے منصوبے کو سی پیک کا حصہ بھی بنایا جا سکتا ہے۔ایک سینیئر حکومتی اہلکار نے بتایا کہ حکومت گلگت بلتستان عجائب گھر کے لیے زمین فراہم کرے گی جبکہ اس کی تعمیر اور دوسری ذمہ داریاں وفاقی حکومت کی ہوں گی۔ گلگت بلتستان کے محکمہ آثار قدیمہ کے اہلکار شیر عالم کے مطابق اس سلسلے میں جی بی حکومت اور واپڈا کے درمیان بات چیت  جاری ہے اور جلد ہی اوپن ایئر عجائب گھر کے مقام کا فیصلہ کر لیا جائے گا۔

 

یہ آثارہیں کیا؟

گلگت بلتستان میں شاہراہ قراقرم کے دونوں جانب ایک بڑے علاقے میں یہ قدیم آثار موجود ہیں۔ شیر عالم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ آثار پتھروں اور چٹانوں پر کندہ کی ہوئی تصاویر اور تحریریں ہیں جو تقریباً 25 مربع کلو میٹر علاقے میں پھیلی ہوئی ہیں اور ان کا بہت بڑا حصہ ضلع دیامیر کے ہیڈ کوارٹر سنٹرل چلاس میں موجود ہے جو ڈیم کی جھیل میں ڈوب جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پتھروں پر بنے ان نقش و نگار میں مارخور، پرندوں، تیر و کمان، بھالو، گھوڑوں کی تصاویر شامل ہیں جبکہ چند ایک مقامات پر بدھ مت کے بانی گوتم بدھ کی تصاویر اور مجسمے  اوراکثر پتھروں اور چٹانوں پر قدیم زبانوں میں تحریریں موجود ہیں۔ ایسے پتھروں اور چٹانوں کی تعداد زیادہ ہے جن پر ایک سے زیادہ نقوش کندہ ہیں۔ کئی مقامات پر ایک پتھر یا چٹان پر پانچ سے 10 نقوش بنے ہوئے ہیں جبکہ  ایسے پتھروں یا چٹانوں کی تعداد بہت کم ہے جن پر صرف ایک نقش بنایا گیا ہو۔

گلگت بلتستان کے محکمہ آثار قدیمہ کی ایک سٹڈی کے مطابق چھوٹے بڑے پتھروں اور چٹانوں پر کندہ ان تصاویر اور تحریروں کی تعداد30 ہزار سے زیادہ ہے۔ سال 1980 میں ہونے والی ایک سٹڈی میں گلگت بلتستان میں مجموعی طور پر 50ہزار آثار کی نشاندہی کی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تاریخی ورثے کی حفاظت کا بھی کوئی مناسب انتظام نہیں اور ماضی میں ان کی چوری کے واقعات  رونما ہو چکے ہیں۔

عالمی شہرت رکھنے والے معروف پاکستانی ماہر آثار قدیمہ اور تاریخ دان ڈاکٹر احمد حسن دانی پہلے شخص تھے جنہوں نے گلگت بلتستان میں پائے جانے والے بدھ مت کے زمانے کے ان آثار قدیمہ پر کام کیا۔ ڈاکٹر دانی 1979 میں جرمن ماہر آثار قدیمہ اور تاریخ دان کارل جیٹمر کی پاکستان کے شمالی علاقوں میں پائے جانے والے آثار قدیمہ پر ایک سٹڈی میں بھی شامل رہے۔

 

کارل جیٹمر جرنل آف ایشین سیولائزیشن میں 2008 میں چھپنے والے ایک مضمون میں لکھتے ہیں: چلاس میں پتھروں پر کندہ تصاویر اور تحریروں کی موجودگی ظاہر کرتی ہے یہ علاقہ بھی بدھ مت کی سرگرمیوں کا مرکز رہ چکا ہے۔ انہوں نے چلاس میں گوتم بدھ کے کئی مجسمے بھی تلاش کیے اور ان اور دوسرے آثار کا سلسلہ چوتھی اور پانچویں صدی عیسوی سے جوڑا۔دوسری سٹڈیز کے مطابق یہ آثار تین ہزار سال سے زیادہ پرانے ہیں۔

آثار محفوظ کیسے ہوں گے؟

ممکنہ طور پر دیا میر بھاشا ڈیم کی زد میں آنے والے 30 ہزار سے زیادہ قدیم آثار چھوٹے بڑے پتھروں اور چٹانوں پر کندہ ہیں۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان بڑے بڑے پتھر اور چٹانوں کو کس طرح دیا میر بھاشا ڈیم کی جھیل کے مقام اور پانی کے راستے سے ہٹا کر اوپن ایئر میوزیم میں منتقل کیا جائے گا؟ سید محمود الحسن نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان پتھروں اور چٹانوں کو  بڑی مشینوں کے ذریعےاٹھا کر عجائب گھر کے مقام پر لے جایا جائے گا، تاہم  اس دوران بہت زیادہ احتیاط سے کام کرنا پڑے گا کہ کہیں قدیم آثار کو نقصان نہ پہنچے۔

ان کا کہنا تھا کہ اکثر پتھر اور چٹانیں ایسی ہیں جن کو صرف  بڑی مشینوں کی مدد سے اٹھایا جانا ممکن ہو گا۔تاہم بہت بڑی چٹانوں کے ان حصوں کو کاٹا جائے گا جہاں کندہ تصاویر اور تحریریں موجود ہیں۔ محمودالحسن نے مزید کہا کہ جن چٹانوں کو اٹھانا یا کاٹنا ممکن نہیں ہو گا ان کی تھری ڈی ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے نقلیں یا ممیز بنائی جائیں گی، جنہیں میوزیم میں رکھا جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان