’میرے پاس جینے کے پیسے نہیں تھے تو ڈاکٹروں سے کہا مجھے مار دیں‘

میں جانتا تھا کہ بے گھر ہونے کے بعد میں زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکتا، لہٰذا میں نے وہی کیا جو مجھے اس وقت سب سے زیادہ موزوں لگا۔

مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہم بحیثیت معاشرہ لوگوں کی زندگیوں کو اس قدر دکھی اور ناامید بنانا چاہتے ہیں کہ خودکشی ایک قابل عمل آپشن بن جائے؟ (اینواتو)

میرے پاس زندہ رہنے کے لیے پیسے نہیں تھے، تو میں نے ڈاکٹروں سے کہا کہ مرنے میں میری مدد کریں اور انہوں نے ہاں کر دی۔

میں جانتا تھا کہ بےگھر ہونے کے بعد میں زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکتا، لہٰذا میں نے وہی کیا جو مجھے اس وقت سب سے زیادہ موزوں لگا۔

میرا نام عامر ہے۔ میری عمر 55 سال ہے اور میں کینیڈا کا رہائشی ہوں۔ میں متعدد جسمانی اور دیگر بیماریوں کا شکار ہوں۔

مجھے ریڑھ کی ہڈی کے سٹینوسس کی وجہ سے ساتوں دن 24 گھنٹے درد رہتا ہے۔

مجھے ڈیجنریٹیو ڈسک کی بیماری، آسٹیوآرتھرائٹس، پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی) کی شکایت ، ڈپریشن، بہت شدید دمہ (مجھے سانس لینے کے لیے تین مختلف انہیلرز کی ضرورت ہے) اور سانس کے نظام کو متاثر کرنے والی دائمی رکاوٹ پلمونری بیماری (سی او پی ڈی) بھی ہے۔

معذوری کی وجہ سے میں کام نہیں کر سکتا اور گذشتہ ایک دہائی سے میرا انحصار سرکاری اونٹاریو ڈس ایبلٹی سپورٹ پروگرام (یا او ڈی ایس پی) پر ہے۔

گذشتہ جولائی میں میرے مالک مکان نے مجھے مطلع کیا کہ جس گھر کے کمرے میں میں رہتا ہوں اسے فروخت کیا جا رہا ہے اور مجھے رہنے کے لیے کوئی اور جگہ تلاش کرنی ہو گی۔

ایک ماہ کی تلاش کے بعد یہ واضح ہو گیا کہ او ڈی ایس پی (امدادی پروگرام) جو پانچ سال سے زیادہ عرصے ہر ماہ ایک ہزار 169 کینیڈین ڈالر پر رکا ہوا ہے، اب کافی نہیں۔

حتیٰ کہ تاریک تہہ خانوں میں بنے کمروں کا ماہانہ کرایہ 800 کینیڈین ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔ ایک ماہ تلاش کے بعد یہ حقیقت مزید عیاں ہو گئی کہ میرے رہنے کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں بچی۔

مجھے علم تھا کہ اپنی موجودہ جسمانی اور ذہنی حالت کی وجہ سے میں آنے والی بےگھری کے زیادہ دن زندہ نہیں رہ سکوں گا لہٰذا میں نے وہ کرنے کا فیصلہ کیا جو میں کر سکتا تھا، اور وہ تھی ایم اے آئی ڈی (Medical Assistance in Dying) یعنی موت کے لیے طبی امداد تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش۔

میں نے اپنے ڈاکٹر سے ایک رسمی سی تحریری درخواست کی۔ انہوں نے اس پر میرے ساتھ بات کرنے کی ناکام کوشش کے بعد آخر کار (اور ہچکچاتے ہوئے) دستخط کر دیے۔

ایسا شخص ہونے کی وجہ سے، جس کو ’ٹیئر ٹو‘ (جو قریب الموت نہ ہو) سمجھا جاتا ہو، مجھے ایم اے آئی ڈی تک رسائی حاصل کرنے سے پہلے درکار دوسرا دستخط کروانے کے لیے لازمی 90 دن انتظار کرنا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میں بنیادی طور پر اپنا وقت پورا کرتے ہوئے مرنے کی تیاری کر رہا تھا۔

لیکن موت کے انتظار میں ایک عجیب بات ہوئی۔ میڈیا کو میری کہانی کی بھنک مل گئی۔ وہ کینیڈا میں ایم اے آئی ڈی پر خبر کر رہے تھے اور اس کے ایک حصے کے طور پر انہوں نے میرا انٹرویو کیا۔ میری کہانی بظاہر بہت سے لوگوں کے ساتھ ملتی تھی، اور ایسے ہی ایک شخص نے میرے لیے عطیات اکٹھے کرنے کا پیج شروع کیا۔

حیرت انگیز طور پر ان عطیات کے پیج نے چار سے پانچ دنوں میں60  ہزار کینیڈین ڈالر سے زیادہ جمع کر ڈالے، جن سے میں قرضے ادا کرنے کے قابل ہو گیا، اور میری آمدنی اتنی ہو گئی جس سے زندگی گزارنا ممکن تھا۔

اگرچہ اس سے ایک ’اچھی لگنے‘ والی کہانی بنتی ہے۔ میں اس بات کی نشاندہی کرنا چاہوں گا کہ میں نے ایک طرح سے لاٹری جیتی ہے جس کے بعد میں اپنے سر پر چھت اور کھانے کے لیے خوراک کی فکر سے آزاد ہو جاؤں گا، تو کینیڈا میں اس وقت 10 لاکھ سے زائد لوگ، کم از کم مالی طور پر، وہاں ہیں جہاں میں چند ماہ پہلے تھا اور وہ یہ لاٹری نہیں جیت پائے۔

بدقسمتی سے اس بحث پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے کہ اس حال میں لوگوں کو زندہ رہنے کے لیے کون سی مدد چاہیے، ایسا لگتا ہے کہ ایم اے آئی ڈی کے معیارات اور ان لوگوں کی اس تک پہنچ، جو کسی بیماری کے آخری سٹیج پر نہیں ہیں، کے بارے میں ایک غیر ضروری چیز پیدا کر کے میری کہانی کو ان لوگوں نے ہائی جیک کرلیا جو حقیقی بحث سے ہٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مجھے امید ہے کہ لوگ اس فضول اور بیہودہ بحث سے پریشان نہیں ہوں گے۔

اصل مسئلہ یہ نہیں کہ آیا میرے جیسے کسی شخص کو ایم اے آئی ڈی تک رسائی حاصل ہونی چاہیے یا نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہم بحیثیت معاشرہ لوگوں کی زندگیوں کو اس قدر دکھی اور ناامید بنانا چاہتے ہیں کہ طبی مدد کے ساتھ اس یا کے بغیر خودکشی ایک قابل عمل آپشن بن جائے؟

یا ہم ایسے اقدامات کرنا چاہتے ہیں جو ان لوگوں کی زندگیوں کو اتنا آسان بنا دیں کہ انہیں اس کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو؟

(ایڈیٹنگ: بلال مظہر | ترجمہ: العاص)

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ