پشاور میں کیلاشی خاتون کی ’خودکشی‘ کا معمہ

لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ترجمان نے بتایا کہ رینا بی بی کو تشویش ناک حالت میں ایمرجنسی میں لایا گیا، جہاں وہ دم توڑ گئیں۔

30 اکتوبر، 2015 کی اس تصویر میں ایک کیلاشی خاتون کپڑے دھو رہی ہے (اے ایف پی)

پشاور میں چترال کی وادی کیلاش سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کی موت معمہ بنی ہوئی ہے۔

رینا بی بی نامی خاتون نے 2016 پشاور کے رہائشی سیف اللہ سے شادی کی تھی۔

لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ترجمان محمد عاصم کے مطابق رینہ کو پیر کے روز تشویش ناک حالت میں ایمرجنسی میں لایا گیا، جو آئی سی یو میں منتقل کیے جانے سے قبل دم توڑ گئیں۔

سیف اللہ کی مدعیت میں پشاور کے تھانہ رحمان بابا میں درج کروائی گئی ایف آئی آر کے مطابق رینہ بی بی نے بچوں کی لڑائی کے بعد خودکشی کے ارادے سے خود پر فائر کیا، جس کے نتیجے میں ان کے پیٹ کے دائیں طرف گولی لگی اور وہ شدید زخمی ہوگئیں۔

ایف آئی آر کے مطابق واقعے کے چشم دید گواہ دیگر اہل خانہ بھی ہیں۔

مبینہ خودکشی یا قتل؟

ایس پی صدر سرکل عقیق حسین کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہسپتال کی میڈیکل رپورٹ کی بنیاد پر خودکشی کی ایف آئی آر تو درج کرلی تاہم معاملے کی تفتیش جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’موت خودکشی ہے یا قتل، یہ پوسٹ مارٹم اور انکوائری کے بعد پتہ چل سکے گا۔‘

خاتون کون تھیں؟

کیلاش قبیلے سے تعلق رکھنے والی رینہ بی بی 2016 میں مذہب تبدیل کر کے مسلمان ہوئیں، جس کے بعد انہوں نے پشاور کے رہائشی سیف اللہ سے شادی کی۔ وہ دو بچوں کی ماں تھیں۔

برادری کے مطابق ان کے قبول اسلام پر نہ صرف ان کا سماجی بائیکاٹ کیا گیا بلکہ کیلاش اور مسلمان برادری کے درمیان اس معاملے پر فساد کے بڑھتے ہوئے خدشے کے پیش نظر علاقے میں منی کرفیو نافذ کیا گیا تھا۔

چترال کے سماجی کارکن شمش النبی نے، جو اس وقت پشاور میں مقیم ہیں، انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گذشتہ رات رینا کے زخمی ہونے کی اطلاع ملتے ہی وہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال پہنچے، جہاں انہیں بتایا گیا کہ رینا انتقال کر چکی ہیں۔

اس واقعے کے حوالے سے پوچھ گچھ کرنے پر رینا کے شوہر نے خود کو حساس ادارے کا اہلکار ظاہر کرکے ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی اور میت کو بغیر پوسٹ مارٹم کے گھر روانہ کر دیا جس کے فوراً بعد ان کی نماز جنازہ ادا کر دی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن سوشل میڈیا پر یہ واقعہ ہائی لائٹ ہونے کے بعد میت کو پوسٹ مارٹم کے لیے خیبر میڈیکل کالج منتقل کر دیا گیا۔

رینا کے والد غلام محمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں کچھ زیادہ نہیں پتہ لیکن وہ یہ جانتے ہیں کہ ان کی بیٹی اور داماد کے درمیان گھریلو ناچاقی چلی آرہی تھی، جس کے نتیجے میں 2020 میں رینا باراض ہوکر چترال آگئیں اور سات ماہ وہاں گزارے۔

اکتوبر 2020 میں فریقین کے درمیان جرگے کے تحت ہونے والے راضی نامے کے متن میں سیف اللہ کو اپنی بیوی کا ہر طرح سے خیال رکھنے اور تشدد نہ کرنے کا پابند کیا گیا تھا، جس کے بعد وہ شوہر کے ہمراہ واپس اپنے گھر پشاور آگئی تھیں۔

توقع کی جا رہی ہے کہ رینا کے والد اور دیگر رشتہ دار پشاور پہنچتے ہی سی سی پی او سے ملاقات کریں گے اور ایف آئی آر میں لگائی گئی دفعہ 325، جو خودکشی کے متعلق ہے، کی بجائے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 174 شامل کرنے کی درخواست کریں گے، جس کے بعد ’معاملے کی شفاف تحقیقات کا عمل ہموار‘ ہو گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان