پاکستان اور افغانستان کے درمیان ’نئے میکنزم‘

وزیر مملکت حنا ربانی کھر اور طالبان وزیر خارجہ امیر خان متقی کی ملاقات کے دوران نئے میکنزم بنانے پر اتفاق کا مطلب یہ ہے کہ سابق افغان صدر اشرف غنی کے دور میں دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کے لیے بنائے گئے جامع نظام کو ترک کردیا گیا ہے۔

29 نومبر 2022 کی اس تصویر میں افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی دیگر عہدیداروں کے ہمراہ کابل میں پاکستان کی وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر کا استقبال کرتے ہوئے (تصویر: پاکستانی وزارت خارجہ)

پاکستان کی وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر اور افغان طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کی ملاقات میں مسائل کے حل اور مشکلات دور کرنے پر بات چیت اور حل کے لیے نئے ’میکنزم‘ بنانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔

افغان وزارت خارجہ کے نائب ترجمان حافظ ضیا نے کابل میں حنا ربانی کھر اور امیر خان متقی کی 29 نومبر کو ہونے والی ملاقات کے بعد ایک بیان میں کہا کہ نئے میکنزم کے ذریعے دوطرفہ تعاون اور مشترکہ مفادات پر پیش رفت کے لیے کام کیا جائے گا۔

بیان میں ایک لحاظ سے ’مسائل اور مشکلات‘ کی موجودگی کو تسلیم کیا گیا ہے، تاہم افغان ترجمان نے ٹوئٹر پر جاری کیے گئے بیان میں کسی خاص مسئلے کی نشاندہی نہیں کی ہے۔

نئے میکنزم بنانے پر اتفاق کا مطلب یہ ہے کہ سابق افغان صدر اشرف غنی کے دور میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کے لیے بنائے گئے جامع نظام کو ترک کردیا گیا ہے۔

امن اور یکجہتی کے لیے افغانستان اور پاکستان عملی منصوبے کے نام سے ڈائیلاگ کا نظام اس لیے جامع تھا کہ اس میں فوجی افسران، انٹیلی جنس اہلکاروں، وزارت خارجہ کے حکام، تجارت اور افغان پناہ گزینوں کے معاملات پر پانچ گروپس بنائے گئے تھے۔

سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے گذشتہ سال اکتوبر میں دورہ کابل میں طالبان حکومت اور پاکستان نے اسی نظام کی بنیاد پر مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا تھا۔

پاکستانی دفتر خارجہ کے بیان میں یہ نیا نظام بنانے کا ذکر نہیں، تاہم حنا ربانی کھر کے حوالے سے کہا گیا کہ انہوں نے بین الاقوامی برادری اور افغان عبوری حکومت کے درمیان عملی رابطوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ افغانستان میں مشکل حالات، تعمیر نو اور سماجی اور معاشی ترقی میں چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

دورہ افغان عبوری حکومت اور پاکستان دونوں کے لیے اہم تھا۔ یہ بظاہر تنہائی کا کسی حد تک سامنا کرنے والی طالبان حکومت کے لیے اہم تھا کہ خطے کے ایک اہم ملک کا اعلیٰ سطح کا وفد ایسے وقت میں افغانستان کے منجمند فنڈز کی بحالی اور طالبان کے ساتھ بین الاقوامی رابطوں پر زور دے رہا ہے جب طالبان کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔

افغان اور پاکستانی ماہرین اس پر متفق ہیں کہ حنا ربانی کھر کا دورہ کابل اہمیت کا حامل ہے۔

افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر منصور احمد خان کا کہنا ہے کہ حنا ربانی کھر کا دورہ اس لیے اہم تھا کہ رواں برس جنوری میں قومی سلامتی کے سابق مشیر معید یوسف کے دورے کے بعد رابطوں میں ایک تعطل کا سا ماحول تھا لیکن وزیر مملکت برائے امور خارجہ کے دورے میں تمام شعبوں میں تعاون پر تفصیلی گفتگو ہوئی ہے۔

منصور احمد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستان میں سیاسی تبدیلی کے بعد سیاسی رابطوں میں ایک خلا پیدا ہوگیا تھا تو اس ماحول میں یہ سفر خوش آئند ہے۔‘

اس سوال پر کہ کیا سکیورٹی معاملات پر بھی گفتگو ہوئی ہوئی تو انہوں نے کہا کہ پاکستانی وفد نے پاکستانی طالبان کی جانب سے تشدد میں اضافے کا مسئلہ ضرور اٹھایا ہوگا کیونکہ یہ حالات پاکستان کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔

’اب تو کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے فائربندی کو ختم کرنا اور بلوچستان میں چمن اور کرم قبائلی ضلعے میں خرلاچی سرحد پر حالیہ واقعات بھی پاکستان کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔‘

امریکہ میں افغان تعلیمی ماہر ڈاکٹر عبیداللہ برہانی کا موقف ہے کہ حنا ربانی کھر کا دورہ ’علامتی‘ ہے اور افغانستان کے داخلی معاملات میں اس کے کچھ زیادہ اثرات نہیں ہوں گے۔

ڈاکٹر برہانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستانی وفد نے افغان سائیڈ کو بتایا ہوگا کہ اگر سیاسی کشیدگی موجود بھی ہو لیکن اقتصادی تعلقات اور تجارتی معاملات کو اس سے دور رکھا جائے اور اگر اقتصادی تعلقات اچھے ہوں تو سیاسی حالات بھی بہتر ہوسکتے ہیں۔

ان کے بقول: ’خاتون وزیر کو بھیج کر طالبان کو یہ بھی بتانا تھا کہ پاکستان کا طالبان پالیسیوں کے ساتھ اتفاق نہیں ہے۔ حنا ربانی کھر کے دورے میں مصروفیات کی تصاویر اور ویڈیوز سے طالبان کو کسی حد تک شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑا کہ طالبان کی خواتین کے ساتھ کیا پالیسیاں ہیں۔‘

ڈاکٹر برہانی کے مطابق پاکستانی اور افغان تاجروں کا یہی پرانا موقف ہے کہ تجارت اور اقتصادی معاملات کو سیاسی اور سکیورٹی سے الگ رکھا جائے اور ممکن ہے حنا ربانی کھر نے یہ پیغام طالبان قیادت کو پہنچایا ہو۔

13 نومبر کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان چمن سرحد پر فائرنگ کے واقعے کے بعد سرحد ایک ہفتے تک بند رہی اور دونوں ممالک کے تاجروں کے مالی نقصان کے علاوہ راہداری تجارتی گاڑیاں بھی سرحد پار نہ جاسکیں۔ عمران خان کی حکومت میں سرحد کی بندش کو وزیراعظم کے فیصلے سے منسلک کیا گیا تھا لیکن شاید اب ایسا نہیں۔

اگرچہ پاکستانی وفد کا فوکس دوطرفہ تعلقات اور اعتماد کی بحالی ہوسکتا ہے لیکن اس کا بھی امکان ہے کہ پاکستانی وزیر مملکت برائے خارجہ نے خطے اور دنیا کے کئی پیغامات طالبان رہنماؤں کو پہنچائے ہوں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اکثر ممالک تو اب طالبان کے ساتھ براہ راست رابطے میں ہیں لیکن شاید ان کی رسائی طالبان تک اتنی نہیں، جتنی پاکستان کی ہوگی۔ دنیا اور خطے کے ممالک طالبان سے رابطے اس لیے رکھنا چاہتے ہیں تاکہ افغانستان میں امن اور استحکام ہو کیونکہ کوئی ملک دوبارہ افغانستان میں عدم استحکام کا بالکل بھی حامی نہیں۔

لیکن طالبان کا بھی امتحان ہے کہ وہ کس حد تک دنیا کے مطالبات پر توجہ دیتے ہیں۔ طالبان نے اس وقت تک خواتین کے حقوق، لڑکیوں کے ہائی سیکنڈری سطح کے تعلیمی اداروں کو کھولنے اور اپنے نظام میں دوسروں کو جگہ دینے کے مطالبات مسترد کیے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ طالبان حکومت سے بین الاقوامی سطح پر مایوسی کا اظہار ہو رہا ہے۔ طالبان کوافغانستان پر 16 نومبر کو ماسکو مذاکرات میں بھی نہیں بلایا گیا حالاں کہ روس ان چند ممالک میں شامل ہے، جن کے طالبان کے ساتھ اچھے رابطے ہیں اور طالبان کے دنیا کے ساتھ رابطے قائم کرنے میں روس کا ایک اہم کردار رہا ہے، لیکن شاید تعلقات اس طرح نہیں رہے اور اس کی بنیادی وجہ طالبان پالیسیاں ہیں۔

حنا ربانی کھر کے دورے کا ایک مقصد طالبان کو یہ پیغام بھی دینا ہو کہ ایک اسلامی ملک کے نظام میں خاتون وزرا بھی ہیں، جس سے طالبان متفق نہیں ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان کے جو بھی حالات ہوں وہ پاکستان پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ افغانستان میں کوئی بھی مشکل ہو، خواہ وہ سکیورٹی ہو یا اقتصادی، اس کے اثرات ضرور پاکستان پر پڑتے ہیں۔

اگرچہ اب دنیا طالبان کے ساتھ براہ راست رابطوں کے خواہشمند ہیں لیکن اکثر ممالک کا شاید یہ خیال ہو کہ پاکستان اب بھی طالبان پر اثر و رسوخ رکھتا ہو۔

یہ موقف شاید اب درست نہ ہو کہ طالبان اب پاکستان میں نہیں بلکہ افغانستان میں ہیں اور افغانستان کے حکمران ہیں۔

پاکستان کو خود طالبان کے درمیان اعتماد پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ گذشتہ سال اگست میں کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد مجھے چھ مرتبہ افغانستان جانے کا موقع ملا ہے اور طالبان حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ بد اعتمادی کا ایک ماحول موجود ہے۔

اب پاکستان کے لیے یہ ایک چیلنج ہے کہ پاکستان طالبان رہنماؤں کا اعتماد بحال کرسکتا ہے یا نہیں؟

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ