خاموشی کی زبان

عمران خان اپنے سارے پتے کھیل چکے لیکن اسٹیبلشمنٹ کے پاس پتوں کا نیا ڈیک آگیا ہے اور اس میں پہلا پتہ کون سا کھیلا جائے گا یہ دیکھنا انتہائی اہمیت اور دلچسپی کا حامل ہے۔

29 نومبر 2022 کو راولپنڈی میں واقع جنرل ہیڈ کواٹرز میں جنرل قمر جاوید باجوہ نئے آرمی چیف عاصم منیر کو کمان سونپ رہے ہیں (اے ایف پی/ آئی ایس پی آر) 

ایک بہت مشہور و معروف قول ہے کہ ’خاموشی کی بھی اپنی زبان ہوتی ہے‘ اور یہ بات نئے آرمی چیف سید حافظ جنرل عاصم منیر شاہ کی تعیناتی کے بعد انتہائی شدت سے یاد آتی ہے کیوں کہ جب سے انہوں نے اپنے عہدے کا چارج سنبھالا ہے تو ایک قسم کی خاموشی سی چھائی ہوئی ہے جب کہ اس کے برعکس ان کے پیشرو جنرل قمر جاوید باجوہ کو دیکھا جائے تو ان کی شخصیت میں ایک کھلا پن نمایاں تھا اور چیزیں زیادہ واضح تھیں۔

اگر جنرل قمر باجوہ کے دور کو دیکھا جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے میڈیا اور سیاست دانوں سے بڑے اچھے، واضح اور دوستانہ تعلقات تھے۔ ان کے دل میں جو بات آتی تھی وہ زبان پر لانے سے کتراتے نہیں تھے۔

جنرل باجوہ نے اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا کے تعلقات کو ایک نئے عہد میں داخل کیا۔ ان کے دور میں اسٹیبلشمنٹ اور ملکی سیاست کے درمیان تعلقات بھی اپنے عروج پر تھے، جس کا ملکی سیاست میں مثبت اثر بھی ہوا۔

تاہم اس کے منفی اثرات بھی ہوئے اور آخر میں انہیں خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔ جنرل باجوہ کے دور میں پاکستانی فوج میڈیا پر بہت زیادہ سرگرم دکھائی دی، اس سے قبل اس طرح کی سرگرمیاں بہت محدود ہوتی تھیں۔

اب اگر ہم موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا ذکر کریں تو ہمیں ایک بڑی تبدیلی نظر آتی ہے۔

جنرل سید عاصم نہ صرف انتہائی کم گو ہیں بلکہ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ دوست اور دشمن کی بہت اچھی پہچان رکھتے ہیں۔

وہ بہت سوچ سمجھ کر دوست بناتے ہیں اور پھر ان دوستیوں کو نبھاتے بھی ہیں۔ اسی طرح دشمن بنانے میں بھی بڑی سوچ بچار سے کام لیتے ہیں۔

جنرل باجوہ اور جنرل عاصم کی شخصیات میں تبدیلی کا ایک عملی مظاہرہ ہم نے کمان کی تبدیلی کی تقریب میں دیکھا، جہاں چھڑی کی منتقلی کے دوران جب جنرل باجوہ نے نہایت گرم جوشی سے نئے آرمی چیف کو گلے لگایا اور ان کو معانقہ دیا۔

انہوں نے نہ صرف معانقہ دیا بلکہ انہوں نے جنرل عاصم کے کندھے پر تھپکی دی جبکہ اس کے برعکس اس موقعے پر جنرل عاصم کے رویے میں ایک پروفیشنل فوجی کی جھلک دیکھنے کو ملی جہاں ان کی باڈی کی حرکات انتہائی محدود تھیں۔

ابھی جنرل عاصم کو کمانڈ سنبھالے ہوئے کچھ دن ہوئے ہیں لیکن ہمیں دونوں افسروں کی پالیسی میں بہت بڑا اور واضح فرق محسوس ہو رہا ہے۔

اس صورت حال سے ہمیں یہ تاثر مل رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا اب ’خاموش‘ پالیسی کا آغاز ہونے والا ہے اور اس کا مظہر ہمیں گذشتہ دنوں پاکستانی فوج میں ہونے والے کچھ ٹرانسفر اور پوسٹنگز پر ملا، جہاں 180 ڈگری کے زاویے پر روایات کے برعکس ان تبدیلیوں کا نہ تو اعلان کیا گیا اور نہ ہی کوئی شور و غوغا ہوا۔

حتیٰ کہ آرمی چیف کی سعودی عرب کے سفیر سے ملاقات تک کو خاموشی سے جانے دیا گیا، جو فوج کے تعلقات عامہ یعنی آئی ایس پی آر کے کردار کی یکسر منافی ہے۔

اگر آئی ایس پی آر کی بات کی جائے تو وہاں بھی تبدیلی کی خبریں ہیں کہ میجر جنرل احمد شریف کو نئے ڈی جی آئی ایس پی آر بنانے کی اطلاعات ہیں۔

جنرل احمد شریف کا تعلق فوج کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے سے رہا ہے اور وہ ایک نہایت ٹیکنیکل اور قابل بندے ہیں۔

جنرل احمد شریف کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کا جنرل سید عاصم منیر سے انتہائی گہرا اور قریبی تعلق ہے۔ ان کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ بھی اپنے کام سے کام رکھنے والے اور کم گو شخصیت کے حامل ہیں۔

حالیہ دنوں میں یہ بات بھی بڑی چل رہی ہے کہ آئی ایس پی آر، جو کہ ایک بہت توانا اور بھرپور آواز میں فوج کے امیج کو بہتر کرنے کی کاوش کرتا تھا، اس کا کردار بھی محدود کیا جارہا ہے۔

اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ’خاموش‘ رہنے کی پالیسی ایک طویل مدتی پالیسی کا پیش خیمہ ہے یا اس کا مظاہرہ صرف وقتی طور پر کیا جا رہا ہے۔

آئی ایس پی آر کا ہمیشہ سے کام ہی ملٹری کے امیج کو بہتر بنانا اور ففتھ جنریشن وارفیئر کو فروغ دینا ہے۔

’ففتھ جنریشن وار فیئر‘، جو کہ اسٹیبلشمنٹ کی اپنی اصطلاح ہےاور اس پر کافی زور بھی دیا گیا، لیکن کیا ادارہ اب اس کی اصلاح کی طرف جانے کا سوچ رہا ہے۔

اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ادارے کے اندر ایک بڑی تبدیلی آرہی ہے؟

اس سوال کی بنیاد نئی فوجی قیادت کے آنے کے بعد سے دکھائی دینے والی خاموشی، نپی تلی حکمت عملی اور کوئی بھی شور شرابہ نہ ہونے کے پیش نظر ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کا اطلاق کس طرح ہوتا ہے؟

ان تبدیلیوں سے جہاں عوام کنفیوژ ہیں، وہیں ادارے کے اندر لوگ انتہائی کنفیوژن کا شکار ہیں۔

سارے ملک کی نظریں فوج اور اس کی نئی قیادت کی طرف جمی ہوئی ہیں۔ نئے آرمی چیف کے آنے کے بعد فوج کا کردار کیسا ہوگا یہ بات ہر کسی کے ذہن میں ہے۔

دوسری جانب اگر ملکی سیاست پر نظر دوڑائی جائے تو وہاں ایک بہت بڑی تبدیلی اور خاموشی ہمیں نظر آئے گی۔

اس دفعہ خاموشی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف اور سابق وزیراعظم عمران خان کی دکھائی دے رہی ہے۔

عمران خان اور نئے آرمی چیف جنرل سید عاصم کا ایک ماضی بھی رہا ہے ۔ عمران خان کی حکومت میں جنرل عاصم منیر جب ڈی جی آئی ایس آئی تھے، تو تعلق زیادہ خوش کن یا حوصلہ افزا نہیں تھا۔

تاہم عمران خان نے حیران کن طور پر اس اہم تعیناتی پر کوئی رخنہ نہیں ڈالا بلکہ صدر عارف علوی جب ان سے ملنے لاہور گئے تو انہوں نے عارف علوی کو سمری پر دستخط کرنے کو کہا۔

اسی طرح انہوں نے گذشتہ دنوں ایک ٹویٹ کے ذریعے نو منتخب آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا کو مبارک باد دی اور قائداعظم کے ایک قول کے ذریعے فوج کو ان کی آئینی حدود میں رہنے کی یاد دہانی کرائی۔

عمران خان نے نہ صرف ایک معنی خیز خاموشی اختیار کی بلکہ انہوں نے اپنے پارٹی کارکنوں کو بھی ہدایت جاری کی ہے کہ فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کوئی بات نہیں کرنی۔

کیا عمران خان کا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جھگڑا جنرل باجوہ کے جاتے ہی ختم ہوگیا یا پھر موجودہ آرمی چیف کے ساتھ ان کے ماضی کی تلخ تجربات کی باقیات ہمیں دیکھنے کو ملیں گی۔

اب کیا عمران خان نئے آرمی چیف سے متعلق ’دیکھو اور انتظار کرو‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں یا ان کے ذہن میں کوئی بڑا منصوبہ چل رہا ہے۔

اگرعمران خان کے پاس کوئی پلان موجود ہے بھی تو وہ کیا ہوسکتا ہے اور اس کے کیا نتائج ہوں گے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس وقت دو خاموشیاں چل رہی ہیں، ایک طرف نئی فوجی قیادت نے خاموشی اختیار کی ہے تو دوسری جانب عمران خان اور تحریک انصاف نے خاموش رہنے کو ترجیح دی ہے۔

اب ان دونوں میں سے ایک خاموشی کے پیچھے ایک بڑا طوفان چھپا ہے اور اس طوفان کا ہمیں وقت بتائے گا۔

عمران خان کی بات کی جائے تو انہیں جتنے طوفان لانے تھے وہ گذشتہ سات ماہ میں لے آئے اور ان کا آخری طوفان، جس کا انہوں نے دعویٰ کیا یعنی کہ ’لانگ مارچ‘ وہ بھی چائے کی پیالی کا طوفان ثابت ہوا۔

ان کے پاس ایک آخری پتہ اسمبلیوں کی تحلیل کا بچا تھا لیکن لگتا ہے کہ وہ بیک فائر کرتا نظر آرہا ہے۔

اب پورا نظام دم سادھے منتظر ہے کہ کس کی خاموشی پہلے ٹوٹتی ہے؟ کون پہلے اپنا اگلا قدم اٹھاتا ہے؟

اسمبلیوں کی تحلیل کو دیکھا جائے تو عمران خان نے 26 نومبر کو اسمبلیوں سے استعفے کا اعلان کیا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس اعلان پر عمل درآمد مشکل سے مشکل ہوتا نظر آ رہا ہے۔

عمران خان کے استعفوں کے اعلان پر ان کی اپنی پارٹی میں اتفاق رائے نہیں ہو پا رہا۔

خاص طور پنجاب اسمبلی کی تحلیل پر پارٹی قیادت میں اختلاف پایا جا رہا ہے اور خیبر پختونخوا اسمبلی تب تک نہیں ٹوٹے گی جب تک پنجاب اسمبلی تحلیل نہیں ہوتی۔

صورت حال یہ ہے کہ خیبرپختونخوا اسمبلی، پنجاب اسمبلی کی جانب دیکھ رہی ہے جبکہ پرویز الٰہی بشمول سینیئر پی ٹی آئی قیادت فی الحال پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کے موڈ میں نہیں۔

اب عمران خان کے پاس کوئی پتہ باقی نہیں بچا، وہ پنے سارے پتے کھیل چکے لیکن اسٹیبلشمنٹ کے پاس پتوں کا نیا ڈیک آگیا ہے اور اس میں پہلا پتہ کون سا کھیلا جائے گا یہ دیکھنا انتہائی اہمیت اور دلچسپی کا حامل ہے۔

 اب وقت بتائے گا کہ کس کے ساتھ کیا ہوتا ہے اور کس کی خاموشی زیادہ مؤثر رہتی ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ