جب زبان نہیں تھی تو لوگ کرتے کیا تھے؟

بجائے ’خالص زبان‘ کی دہائی مچانے کے، شاید ہمیں اب وہ اردو قبول کر لینا چاہیے جو ٹی وی ڈراموں اور پروگراموں میں بولی جاتی ہے۔

(تصویر: انواتو)

ہم لوگوں کے مسئلے کیا ہوتے ہیں؟ پانی نہیں آ رہا، گیس بند ہو گئی، بچوں کی فیس دینی ہے، کام والی باجی نہیں آئیں، موزے نہیں دھلے، مہینے کے آخر میں پیسے کم پڑ گئے، جون میں بجلی نہیں ہے، دسمبر میں گیس چلی گئی، ٹائر پنکچر ہو گیا، صابن ختم ہے۔۔۔ ایک لمبی لسٹ روز موجود ہوتی ہے۔ معلوم ہے سائنس دانوں کے بڑے بڑے مسئلوں میں سے ایک کیا تھا اور ہے؟ زبان کہاں سے آئی، کیسے بنی؟

یہاں وہ جن، بھوت، بابے اور موکل یاد آتے ہیں جو ابھی 30، 40 برس تک ہر گھر کے درخت میں یا چھت پہ پائے جاتے تھے اور ایک نہ ایک لوکل بزرگ ان کے دیدار کا چشم دید گواہ ہوتا تھا۔

ان کے چکر میں نذر نیازیں بھی کی جاتی تھیں، ان کے قصے بھی سنائے جاتے تھے لیکن کبھی کوئی فائدہ اٹھانے کا خیال کسی کو نہیں آیا۔ اگر اس وقت کوئی واقف حال یہ پوچھ لیتا کہ اے خارق العادہ صاحب کرامات، کم از کم یہ ہی بتا دیجیے کہ انسان نے بولنا کب شروع کیا تو انسانی تاریخ کی ایک بہت بڑی گتھی سلجھ جانی تھی۔

ہنسی مذاق ایک طرف، اس معاملے پہ ماہرین نے اتنا سر کھپایا کہ اٹھارویں صدی میں فرانس والوں نے تنگ آ کے اس مسئلے پہ تحقیق بین کروا دی، بولے خبردار جو اب کسی نے زبان کی شروعات جاننے کا نام بھی لیا ہو، ایویں اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہیں، حاصل وصول کچھ ہوتا نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے کا بل!

یہ بات جاننا مشکل اس لیے ہے کہ ہمارے پاس کوئی بھی ثبوت یا کڑی نہیں ہے جو ہمیں براہ راست وہاں سے ملا دے کہ بھئی فلاں دور تھا، فلاں قوم تھی، اللہ اللہ خیر صلا۔

جیسے لکھنے کے معاملے میں ہوا کہ سائنس دانوں کو (اچھا یہ ویسے ماہرین آثار قدیمہ اور کئی دوسرے ماہرین کی کارروائیاں تھیں جسے ایک لفظ ’سائنس دان‘ میں لپیٹ کے پیش کیا جا رہا ہے) لکھی لکھائی پتھر کی تختیاں مل گئیں، کتبے مل گئے، بہت سے ایسے ثبوت تھے جن کے ٹیسٹ وغیرہ کیے اور نتیجہ نکال دیا کہ تاریخ میں سب سے پہلے سمیریوں نے لکھنا شروع کیا۔

پھر مصریوں اور چائنا والوں کا نمبر آیا۔ ہائے۔۔۔ سمیری کون تھے؟ اس سوال پہ دو چیزیں یاد آ گئیں۔ ایک تو مرزا ابن حنیف تھے، پوری زندگی لگا دی انہوں نے قدیم زبانوں کی بات کرنے کے لیے، ہم تک اردو میں پہنچانے کے لیے، لیکن کس نے پڑھا انہیں؟

چھوڑیے، یا نہ بھی چھوڑیں ایک بار گوگل ہی کر لیں، کیا ہی علم دوست ہستی تھے۔ اور دوسری بات یہ ذہن میں آئی کہ سمیری وہ تھے جو آج کا عراق ہے۔ جنہوں نے دنیا کو لکھنا سکھایا خود وقت کے ہاتھوں کہاں لکھے گئے۔ زمانے کی چال کچھ نہیں ہوتی خود اپنا قصور ہوتا ہے یار، جیسے آج کل ہمارا ہے۔

تو بس یہ ہوا کہ سائنس دانوں کو ایسا سرا کوئی نہیں ملتا جسے تھام کر وہ اعلان کردیں کہ دنیا والو، اے پیا جے زبان دا اوریجن ۔۔۔ یہ اب تک ممکن نہیں ہوا۔

کچھ ماہرین نے کافی حساب کتاب لگایا اور کہنے لگے کہ زبان جیسی پیچیدہ چیز ایک دم نہیں بن سکتی، یہ ضرور تب سے بن رہی ہو گی جب ہم بندر سے انسان بن رہے تھے۔

بعض نے اس پر لاحول پڑھی اور کہا کہ یہ ممکن ہی نہیں، جو چیز ہمیں اشرف المخلوقات بناتی ہے وہ ہو ہی نہیں سکتا کہ بندر پن کے زمانوں میں پائی جاتی ہو، ان کے مطابق یہ کافی بعد کی چیز تھی جو ارتقا کے دوران اچانک کبھی سامنے آ گئی۔

چند ایسے محقق بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ زبان آدمیوں کے جینز میں ہوتی ہے۔ ڈی این اے کے اندر، یعنی آپ زبان سیکھے سکھائے پیدا ہوتے ہیں بس باہر والے اسے پالش کر دیتے ہیں (ویسے یہ والی بات پلے نہیں پڑتی)۔

کچھ ایسے سائنسدان تھے جنہوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ زبان تو بھائی کلچر کے اندر ہوتی ہے۔ آپ جس معاشرے میں پیدا ہوں گے بس وہاں اٹھ بیٹھ کے خود ہی سیکھ جائیں گے، اس میں اتنا ٹینشن لینے کی ضرورت کیا ہے؟

ایک سالڈ کام جو زبان کے بارے میں ہوا وہ یہ تھا کہ سائنسدانوں نے زبانوں میں تبدیلی اور ارتقا کا جدید طریقے سے حساب لگانا شروع کیا۔ مثلا ایک زبان کو اچھا خاصا بدلنے میں کتنا عرصہ لگتا ہے، قدیم زبان کیسے اور کب بالکل ختم ہوتی ہے، کب ایک دم پتہ لگتا ہے کہ اچھا، یعنی یہ لفظ 100 برس سے استعمال ہی نہیں ہو رہا؟ 

جیسے پرانی انگریزی کا ایک الگ رجسٹر (انداز کہہ لیجیے) تھا، پرانی عربی اور موجودہ بول چال کی زبان میں فرق ہوا، قدیم فارسی اور جدید میں زمین آسمان کا فرق ہے، میر امن نے باغ و بہار میں کیسی اردو لکھی جو ظاہری بات ہے تب بولی بھی جاتی ہو گی اور یہ بدتمیز کل کا بچہ کیسی اردو لکھ رہا ہے ۔۔۔ یہ سب نوٹ کیا گیا۔

اس کے بعد یہ اندازہ لگایا گیا کہ کم از کم ایک لاکھ برس زبانوں کو موجودہ شکل میں پہنچنے کے لیے چاہیے  ہوں گے نیز یہ کہ ڈیڑھ سے دو لاکھ سال کم از کم گزر گئے انسان کو بولتے ہوئے۔ دو لاکھ سال، اسے ذرا 365 سے ضرب تو دیں۔ یعنی جو بات چیت ہم آج کرتے ہیں یہ دو لاکھ برس کی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔ قربان جائے بندہ ان تحقیق کرنے والوں کے، اور کچھ نہیں چلو دو گھڑی کی حیرت ہی ملتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ویسے اس سب کو ایک طرف رکھ دیں تو کیا جب انسان ہنستا ہو گا، روتا ہو گا، غصہ کرتا ہو گا، حیران ہوتا ہو گا، کسی سے پیار جتانا چاہتا ہو گا تو اس وقت گونگا بن کے رہتا ہو گا؟ یا بے معنی آوازیں نکالتا ہو گا؟ اگر ایسا تھا تو واقعی افسوس کا مقام ہے۔ یعنی دو لاکھ برس پہلے ہم لوگ ’شٹ‘ بھی نہیں کہہ سکتے تھے۔

کوئی لو یو والا سین نہیں، کوئی اوکے نہیں، کوئی ’اوہ ہو‘ نہیں ہوتا ہو گا؟ کیسے مجبور لوگ تھے۔ مطلب انسان کے پاس اظہار ہی تو ایک آسرا ہے، جب وہ بھی نہیں تھا تو کیسی بے سکونی ہوا کرتی ہو گی؟

مگر ایک بات طے ہے۔ اس وقت جھوٹ نہیں بولا جا سکتا ہو گا۔ بھئی جب آپ نے غوں غاں ہی کرنی ہے اور اشارے کرنے ہیں تو کدھر کا سچ اور کہاں کا جھوٹ، بس وہی ہے جو نظر آ رہا ہے، جو نہیں ہے وہ پھر ’عدم‘ ہے، غائب ہے۔ یہ سسٹم ویسے زیادہ بہتر تھا، بلکہ کمال تھا۔

آج ہمارے جتنے مسئلے ہیں سب کے سب بولنے کی وجہ سے ہیں، بولے نہیں اور پھنسے نہیں۔ تم نے ایسے کیوں کہا؟ سر آپ نے ہی تو یہ کہا تھا؟ تم شادی سے پہلے تو ایسے نہیں کہتے تھے؟  یار وہ جو تیرا گپ شپ والا سٹائل تھا، سب ختم ہو گیا، اوئے جاگیردارا،  وغیرہ وغیرہ، مطلب کیا سکون ہو کہ لینگوئج ہی نہ ہو۔ نہ کوئی بولنے والا ہو نہ سمجھنے والا ہو، نہ ڈھولا ہوسی نہ رولا پوسی۔

زبانیں بہت تیزی سے بدل رہی ہیں۔ پچھلے ہزار برس میں جو تبدیلیاں ہوتی ہوں گی وہ اب 50 برس میں ہوئی جاتی ہیں۔ دنیا بہت سمٹ چکی ہے۔ انٹرنیٹ کی وجہ سے ہر وہ انسان جو اس کی رینج میں ہے کم از کم ڈبلیو اور ڈاٹ کام ضرور سمجھتا ہے۔ ایسے میں اردو کہاں کھڑی ہے؟

اردو شاید اپنے بہترین دور میں ہے۔ آن لائن کی بورڈ کی وجہ سے اردو ٹائپ کرنا ہمارے بزرگوں تک کو آ گیا ہے اور نئی نسل کے پاس بھی یہ سہولت موجود ہے۔

بجائے ’خالص زبان‘ کی دہائی مچانے کے، شاید ہمیں اب وہ اردو قبول کر لینا چاہیے جو ٹی وی ڈراموں اور پروگراموں میں بولی جاتی ہے۔

ایسا نہیں کرتے تب بھی کیا ہے، پہلے کون سا ہماری قبولیت کے اعزاز سے اردو یہاں تک پہنچی ہے؟ خدا خیر ہی کرے گا!

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ