بلوچستان: کیا جمعیت علمائے اسلام سیاسی معرکہ جیت سکے گی؟

سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی نے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی موجودگی میں اپنے ساتھیوں سمیت جمعیت میں شمولیت کا اعلان کر دیا ہے۔

مولانا عبدالغفور حیدری کے مطابق سابق وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم خان رئیسانی سمیت بلوچ اور پشتون قوم کی دیگر شخصیات ان کے ساتھ شامل ہوں گی (انڈپینڈنٹ اردو/ فائل)

بلوچستان کی سیاست میں ایک بار پھر گرمی نظرآرہی ہے لیکن یہ حکومتی ایوانوں میں نہیں بلکہ جمعیت کی طرف سے کوئٹہ میں طاقت کا مظاہرہ کے لیے جلسے کی تیاریاں ہیں۔

اس جلسے میں بلوچستان کی نامورسیاسی  شخصیات کی طرف سے شمولیت کا اعلان بھی جلد متوقع ہے۔

جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی سیکریٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری نے مولانا عبدالواسع اوردوسرے رہنماؤں کے ہمراہ گذشتہ روزکوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بدھ کو جمعیت علمائے اسلام میں بلوچستان کی سیاست کی موثرترین شخصیات شامل ہونے جا رہی ہیں۔

اس کے بعد بدھ کو سابق وزیراعلیٰ بلوچستان، چیف آف ساروان نواب محمد اسلم خان رئیسانی نے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی موجودگی میں اپنے گھر میں ہونے والی ایک تقریب کے دوران ساتھیوں سمیت جمعیت میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔

انہوں نے کہا، ’شمولیت کا ارادہ کیا تھا، جس میں سات آٹھ مہینےلگے۔ اس دوران لوگوں نے بہت سے غلط فہمیاں پیدا کیں۔ لیکن ہم نے آج باقاعدہ شمولیت کر لی ہے۔ جمعیت سے ہماری قربت بہت پرانی ہے۔‘
اس موقعے پر مولانا فضل الرحمان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نواب اسلم رئیسانی کی شمولیت ہماری لیے خوشی کا باعث ہے۔ ایک زمانے سے ہماری خواہش رہی کہ نواب اسلم کسی  طرح ہمارے ہاتھ آئیں آج ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ جب جمعیت میں معززین آتے ہیں اگر انہوں نے لمبا عرصہ کسی اور جماعت میں گزرا ہوں تو ہم ان کو وہی عزت ان کو دیں جو اہمیت اور عزت ان کو قبیلے اور اس جماعت میں تھی وہی ان کو دیں۔

مولانا غفور حیدری نے کہا کہ ’جمعیت سب سے بڑی سیاسی اور دینی قوت ہے۔ ہماری جماعت نے 2018 کے انتخابات کو پہلے دن ہی مسترد کردیا تھا۔ آنے والے انتخابات میں جمعیت کا بلوچستان میں اہم کردار ہوگا۔ ‘

2018 کے انتخابا ت میں کامیابی کے بعد جے یو آئی ف بلوچستان میں نو ارکان کے ساتھ دوسری بڑی جماعت بن گئی تھی، جو اس وقت صوبے کے ایوان میں اپوزیشن جماعت کا کردار ادا کر رہی ہے۔

 سیاسی تجزیہ کاراورمصنف پروفیسرالیاس بلوچ، جن کی صوبے کی سیاست میں تبدیلیوں پر گہری نظر ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان ایک سیاسی تجربہ گاہ ہے جہاں ہمیشہ نت نئے تجربے کیےجاتے ہیں۔

الیاس بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’کسی مذہبی یا قوم پرست جماعت کے آنے سے بلوچستان میں شہد کی نہریں بہنا شروع نہیں ہوں گی۔ تاہم مذہبی جماعت میں سیاسی اور قبائلی لوگوں کی شمولیت سے لگتا ہے کہ آنے والے دور میں حکومت کا تاج ان کے سر رکھا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ اس دعوت ولیمہ میں نیشنل پارٹی کو بھی مدعو کیا جائے۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ بلوچستان میں جمعیت ایک بڑا سٹیک ہولڈر ہے۔

الیاس کے بقول: ’سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اور چیف آف ساروان نواب محمد اسلم رئیسانی، غلام دستگیر بادینی، امان اللہ نوتیزئی اور کچھ دیگر شخصیات کی وجہ سے جمعیت کو سیاسی فائدہ ضرور ہوگا۔ لیکن دوسری جماعتوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’دوسری جماعتوں پر اس وجہ سے فرق نہیں پڑے گا کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو ہرسال اپنی جماعت کو تبدیل کرتے رہے ہیں۔‘

الیاس کے مطابق کچھ سیاسی جماعتیں جو اپنے آپ کو قوم پرست کہتی ہیں ’خزانے کی چابیاں‘ ان کو بھی دی گئی تھیں۔ لیکن انہوں نے اپنے دور اقتدار میں عوام کو مایوس کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج وہ ایک کونسلر کی سیٹ جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مولانا محمد خان شیرانی کی حیثیت اتنی نہیں کہ ان کے جانے سے جمعیت کو کوئی پریشانی ہو۔

’یہ ہوسکتا ہے کہ وہ جمعیت کی ایک نشست پر کامیابی حاصل کریں لیکن جمعیت بلوچ علاقوں میں نشستیں حاصل کرکے وہ کمی پوری کرسکتی ہے۔‘

الیاس نے کہا کہ دوسری قوم پرست جماعتوں میں انتشارکا فائدہ جمعیت اور عوامی نیشنل پارٹی کو ملے گا۔ 

جمعیت علمائے اسلام کو وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے حکومت میں شمولیت کی دعوت بھی دی تھی۔ جس کو ان کی قیادت نے صلاح مشورہ کے بعد مسترد کردیا تھا۔

 اس سے قبل جمعیت پشتون علاقوں میں مضبوط گرفت رکھتی تھی۔ نواب اسلم اور دیگر کی شمولیت سے اسے بلوچ علاقوں سے بھی نشستیں مل سکتی ہیں۔

 اس سے قبل مولانا محمد خان شیرانی نے مولانا فضل الرحمٰن سے اختلاف کرکے راہیں الگ کرلیں تھیں جبکہ ایک جمعیت نظریاتی کے نام سے بھی تنظیم وجود میں آئی تھی۔

اس وقت سراوان ہاؤس کوئٹہ میں ہر طرف جمعیت کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے جلسے کے حوالے سے پوسٹر لگے ہیں جبکہ شہر میں بھی شاہراہوں چوکوں پر جلسے کے بینرز نظر آتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2021 میں دسمبر کی 20 تاریخ کو جمعیت کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے سراوان ہاؤس کوئٹہ کا دورہ کیا تھا۔ جہاں انہوں نے نواب اسلم رئیسانی کی دعوت پرچائے پی تھی۔

اس کے بعد دونوں رہنماؤں نے میڈیا کے سوالات کا جواب دیا تھا۔ مولانا فضل الرحمٰن نے اس موقع پر کہا تھا: ’میں مستونگ سانحے کی تعزیت کے لیے جارہا تھا تو ہمیں بتایا گیا کہ نواب اسلم رئیسانی نے خواہش ظاہر کی ہے کہ ہم ان کے ساتھ چائے پئیں۔

’نواب اسلم رئیسانی نے جو چائے پلائی اور اس میں ان کی طرف سے جو مٹھاس تھی۔ جس کی وجہ سے مجھے اس میں چینی ڈالنے کی ضرورت نہیں پڑی۔‘

نواب اسلم کو شمولیت کی دعوت کے سوال پر مولانا فضل الرحمٰن نے جواب دیا تھا: ’نواب اسلم رئیسانی جہاں دیدہ آدمی ہیں۔ سیاست ان کے گھر کی لونڈی ہے۔ اور ان کی ملکی اور صوبے کی سیاست پر گہری نظر ہے۔ بحرحال فیصلہ تو انہوں نے کرنا ہے۔‘

 مولانا فضل الرحمٰن کی نواب اسلم رئیسانی سے ملاقات کے ایک سال بعد انہوں نے دسمبر کے مہینے میں ہی جمعیت میں شمولیت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔

گوکہ اس وقت بلوچستان کی سیاست میں تبدیلی کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ قوم پرستوں میں توڑ پھوڑ اور مذہبی جماعتوں میں لوگوں کی شمولیت  کے بعد تجزیہ کار آنے والے الیکشن میں مذہبی جماعتوں کے پلڑے کو بھاری دیکھتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست