لنڈی کوتل: خواتین کی سائیکلنگ کے خلاف احتجاج

لنڈی کوتل میں قبائلی خواتین کے لیے دو روزہ سائیکلنگ کیمپ قائم کیا گیا تھا جس میں 15 لڑکیوں نے حصہ لیا تھا۔ اتوار کو جماعت اسلامی نے اس کے خلاف احتجاج کیا ہے۔

خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر میں گذشتہ جمعے ہونے والی خواتین کی پہلی سائیکل ریلی کے خلاف جماعت اسلامی نے اتوار کو احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔

لنڈی کوتل بازار میں ہونے والے مظاہرے میں لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور خواتین کی سائیکل ریلی کو قبائلی ثقافت اور روایات کی خلاف ورزی قرار دیا۔

پاکستانی سائیکلسٹ اور ایڈونچر سپورٹس وومن ثمر خان نے گذشتہ جمعے کو لنڈی کوتل میں قبائلی خواتین کے لیے پہلا سائیکلنگ کیمپ لگایا تھا جس میں 15 لڑکیوں نے حصہ لیا تھا۔

ثمر خان نے لنڈی کوتل میں سائیکلنگ کیمپ مقامی سابق سپورٹس پرسن اور فری لانس صحافی جمائمہ آفریدی کی مدد سے لگایا تھا جنہوں نے کیمپ کے لیے 10 سائیکلیں بھی دیں تھیں۔

ثمر خان کا کہنا تھا کہ انہوں نے پہلی مرتبہ پشاور یونیورسٹی میں قبائلی خواتین کے ساتھ سائیکل چلائی اور انہیں بہت لطف آیا اور ردعمل بھی بہت اچھا تھا، جس کے بعد ان کے ذہن میں قبائلی خواتین کے لیے سائیکلنگ کیمپ قائم کرنے کا خیال ابھرا۔

ان کا  مزید کہنا تھا کہ لنڈی کوتل کی ماؤں نے اپنی بچیوں کی سائیکلنگ میں بہت دلچسپی لی اس لیے مستقبل میں وہاں کی خواتین کے لیے کھیلوں کے مقابلے اور سائیکلنگ ریلی کا انعقاد کیا جائے گا۔

اتوار کو لنڈی کوتل میں ہونے والے احتجاج میں جماعت اسلامی لنڈی کوتل کے امیر مقتدر شاہ آفرید ی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ خواتین سائیکلنگ کا انعقاد علاقے میں ایک بے حیائی پھیلانے کو شش ہے اور ایسی سرگرمیوں اجازت نہیں دی جائے گی۔

’خواتین سائیکلنگ سے ایک غلط پیغام پہنچتا ہے، خواتین کو ایسی سرگرمیوں کے بجائے پردے میں رہنا چاہیے۔‘

جماعت اسلامی لنڈی کوتل کے سابق جنرل سیکریٹری مراد حسین آفریدی نے الزام لگایا کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک غیر سرکاری تنظیم نے سائیکل ریلی کا اہتمام کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ احتجاج ایسی سرگرمیوں کے خلاف پہلا قدم ہے، جبکہ آآئندہ کا لائحہ عمل مشاورت کے بعد طے کیا جائے گا۔

جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مفتی اعجاز شنواری نے بھی سائیکل ریلی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت ہر غیر اسلامی اور غیر شرعی کام کی مخالفت کرے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس حوالے سے جمائمہ آفریدی کا کہنا تھا: ’میں نے ضلع خیبر میں کھیلوں سے وابستہ لڑکیوں کے لیے ایک منصوبہ بنایا اور لڑکیوں کے والدین سے بھی رابطہ کیا اور ان کی اجازت سے دو روزہ کیمپ لگایا تھا۔‘

جمائمہ آفریدی کا مزید کہنا تھا کہ ضلع خیبر میں خواتین سے متعلق غلط تاثر پھیلایا گیا ہے کہ وہ گھر سے باہر نہیں نکل سکتیں، جبکہ خواتین اور لڑکیاں ہی پانی لانے کے لیے بہت دور دور جاتی ہیں۔

’خواتین کو بھی اپنی ضروریات پوری کرنے کا حق حاصل ہے اور جہاں ان کے لیے سہولتیں نہ ہو وہاں لوگوں کو اعتماد میں لے کر ان کے لیے کوشش کی جانی چاہییں۔‘

اسسٹنٹ کمشنر لنڈی کوتل ارشاد مہمند سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ قانون میں ایسی کسی سرگرمی کی ممانعت نہیں ہے، تاہم عوام اور خواص کو چاہیے قبائلی روایات اور اسلامی اقدار کو ضرور مدنظر رکھیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین