قبائلی علاقے میں خواتین کی سائیکلنگ

پاکستانی سائیکلسٹ ثمر خان نے لنڈی کوتل میں سائیکلنگ کیمپ لگایا جس میں 15 لڑکیوں نے حصہ لیا۔

کیمپ میں لڑکیوں نے صرف دو دن میں سائیکل بیلنس کرنا سیکھ لی: جمائمہ آفریدی (تصویر ہجرت علی آفریدی)

پاکستانی سائیکلسٹ اور ایڈونچر سپورٹس ویمن ثمر خان نے قبائلی خواتین کے لیے پہلی بار لنڈی کوتل میں ’ثمر خان کیمپ‘ لگایا جس میں 15  لڑکیوں نے حصہ لیا۔

ثمر خان کا کہنا ہے کہ انہوں نے قبائلی خواتین اور ثقافت کے بارے میں جو سنا تھا اس کے بالکل برعکس پایا۔

’قبائلی خواتین میں صلاحیت موجود ہے اور انہیں سہولیات دینا وقت کی ضرورت ہے۔‘

ثمر نے بتایا کہ انہوں نے پہلی بار جب پشاور یونیورسٹی میں خواتین کے ساتھ سائیکل چلائی تو اچھا ردعمل آیا۔

اس حوصلہ افزائی کے بعد انہوں نے قبائلی خواتین کے لیے سائیکلنگ کا سوچا۔

’میں نے لنڈی کوتل کی جمائمہ آفریدی کے ساتھ منصوبہ بنایا، جنھوں نے پہلی فرصت میں 10 سائیکلوں کا انتظام کر دیا۔‘

ثمر کے مطابق جمائمہ کو علم نہیں تھا کہ قبائلی خواتین کا ردعمل کیسا ہو گا لیکن لنڈی کوتل کی ماؤں نے اپنی بیٹیوں کی سائیکلنگ میں بہت دلچسپی لی۔

ثمر کہتی ہیں کہ وہ مستقبل میں یہاں کی خواتین کے لیے کھیلوں کے مقابلے اور سائیکلنگ ریلی کا انعقاد چاہتی ہیں تاکہ ان کی حوصلہ افرائی ہو اور وہ کھیلوں میں آگے آئیں۔‘

سابقہ سپورٹ پرسن اور فری لانس جرنلسٹ جمائمہ آفریدی  نے بتایا کہ پہلے پہل انہیں یہ سب مشکل لگا کیونکہ خیبر پختونخوا میں خواتین کیمپنگ ممکن نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جمائمہ کے مطابق ان مشکل حالات میں انہوں نے اہل خانہ سے بات کی، جنھوں نے اپنی حمایت کا اظہار کیا تو انہیں حوصلہ ملا۔

’یہاں کی خواتین نے دو دن میں سائیکل کو بیلنس کرنا سیکھ لیا جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر انہیں مواقع ملیں تو وہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بہتر پرفارم کر سکتی ہیں۔‘

جمائمہ کے مطابق ہم سب یہ کہہ کہہ کر تھک چکے ہیں کہ یہاں خواتین میں صلاحیت کی کمی نہیں مگر سہولیات کا فقدان ہیں۔

’ایسے چھوٹے چھوٹے اقدامات سے علاقے میں خواتین کے پوشیدہ ٹیلنٹ کو آگے آنے میں آسانی ہوگی اور قبائلی خواتین بھی دیگر علاقوں کی طرح کھیلوں میں ملک کی نمائندگی کریں گی۔‘

(ایڈیٹنگ: بلال مظہر)

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین