دہلی پولیس کار سے گھسیٹی جانے والی خاتون کیوں نہیں دیکھ سکی؟

ہلاک ہونی والی خاتون انجلی کی دوست کا دعویٰ ہے کہ گاڑی میں سوار لوگ جانتے تھے کہ انجلی نیچے ہیں لیکن انہوں نے گاڑی نہیں روکی۔

 مرنے والی خاتون کی دوست کا میڈیا سے بات کر رہی ہیں (سکرین گریب/ٹائمز ناؤ ڈیجیٹل)

انڈیا کے دارالحکومت دہلی کے علاقے سلطان پوری میں گذشتہ دنوں ایک 20 سالہ خاتون انجلی سنگھ کے ’ہٹ اینڈ رن‘ حادثے میں ہلاک ہونے کے کئی دن بعد تک اس واقعے پر بحث جاری ہے اور سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

یہ واقعے اس لیے مختلف تھا کہ پولیس اور عینی شاہدین کے مطابق ایک گاڑی میں سوار ملزمان نے سکوٹر سوار خاتون کو نا صرف ٹکر ماری بلکہ 10 کلومیٹر تک ساتھ سڑک پر گھسیٹتے بھی رہے۔

جب دہلی میں نئے سال کا جشن منایا جا رہا تھا تو اگلی صبح اس خاتون کی برہنہ لاش سڑک پر پڑی ملی۔

ہلاک ہونے والی خاتون کی ساتھی ندھی نے اس خوف ناک حادثے کے بعد پہلی بار بات کی ہے۔

خاتون کو حادثے سے چند منٹ قبل ایک سی سی ٹی وی فوٹیج میں سنگھ کے ساتھ بحث کرتے دکھا گیا۔

انہوں نے کہا: ’میری دوست گاڑی کے نیچے پھنس گئی تھی۔ ان لوگوں کو معلوم تھا کہ ان کی گاڑی کے نیچے ایک لڑکی پھنس گئی ہے۔ وہ جانتے تھے۔‘

’لڑکی گاڑی کے نیچے پھنسی ہوئی تھی اور وہ چیخ رہی تھی۔‘

حادثے کی سنگین تفصیلات نے ملک بھر کو صدمے سے دوچار کر دیا۔

متعدد لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے اور متاثرہ خاندان کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا۔

خاتون کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ اس کے جسم پر 40 زخم آئے جو ’گاڑیوں کے حادثے اور گھسیٹنے سے ممکن ہیں۔‘

رپورٹ میں کہا گیا کہ ’تمام چوٹیں  فطری طور پر موت کا سبب بن سکتی ہیں۔ تاہم، سر، ریڑھ کی ہڈی، ہڈیوں اور دیگر زخموں کی وجہ سے عام نوعیت کے دوران آزادانہ اور اجتماعی طور پر موت واقع ہو سکتی ہے۔‘ 

تاہم حتمی رائے کیمیائی تجزیہ اور حیاتیاتی نمونوں کی رپورٹس کی وصولی کے بعد دی جائے گی۔

پانچوں ملزمان پر مجرمانہ قتل اور لاپرواہی سے موت کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

ملزمان کے اہل خانہ نے کہا کہ وہ خاتون کو 10 کلومیٹر سے زیادہ گھسیٹنے کے بارے میں نہیں جانتے۔

ان کا خیال تھا کہ یہ ایک ’عام سا حادثہ‘ ہے۔ ان کے اہل خانہ نے مزید بتایا کہ ان افراد نے حادثے سے چند گھنٹے قبل ایک جاننے والے سے کار ادھار لی تھی۔

پانچ بہن بھائیوں میں سے ایک انجلی واحد کمانے والی تھیں، جس بنا پر ان کے اوپر بہت سی ذمہ داریاں تھیں۔

20 سالہ انجلی سنگھ اپنی عمر کی کسی بھی دوسری نوجوان عورت کی طرح تھی جو پنجابی گانوں کی مداح تھیں، انسٹاگرام ریلز بنانے سے لطف اندوز ہوتی تھیں اور میک اپ کرنا پسند کرتی تھیں۔

ان کے خاندان کے لیے انجلی کی موت بڑا شدید دھچکا ہے۔ انہوں نے آٹھ نو سال قبل اپنے والد کو کھو دیا تھا، اور ان کی ماں کو گردے کی تکلیف تھی۔

اس وجہ سے انجلی نے دسیوں کلاس میں سکول چھوڑ دیا تاکہ وہ خاندان کی مالی مدد کر سکیں۔

انہوں نے ایک سیلون میں نوکری شروع کی اور پھر شادیوں اور اس طرح کی دیگر تقریبات میں شرکت سے 500 سے 1000 انڈین روپے کماتی تھیں۔

خاندان نے کہا کہ ان کا بنیادی کام مہمانوں کا استقبال کرنا، پھولوں کا بندوبست کرنا اور دلہنوں کو میک اپ اور ڈریسنگ میں مدد کرنا تھا۔ 

انہوں نے بتایا کہ وہ ایسی ہی ایک تقریب سے رات کو گھر لوٹ رہی تھیں۔

اسی دن گرفتار کیے گئے تمام پانچ ملزمان – دیپک کھنہ، امیت کھنہ، منوج متل، کرشن اور متھن – کو تین دن کے پولیس ریمانڈ پر بھیج دیا گیا۔

پولیس نے بتایا کہ دیپک اس وقت گاڑی چلا رہے تھے۔ پانچوں افراد نے واقعے کے دوران نشے میں دھت ہونے کا اعتراف کیا لیکن کہا کہ وہ لڑکی کے کار کے نیچے پھنسی ہونے کے بارے میں نہیں جانتے تھے۔

منوج کے علاوہ، جو راشن کی ایک دکان چلاتا ہے اور بی جے پی کے کارکن ہیں، عمر کے اعتبار سے باقی سب 20 کی دہائی کے اوائل میں ہیں اور ایک ہی علاقے میں رہتے ہیں۔

پولیس نے بتایا کہ یہ لوگ ادھر ادھر گاڑی چلا رہے تھے جب انہوں نے انجلی کے سکوٹر کو ٹکر ماری۔

تازہ تحقیق سے معلوم ہوا کہ دہلی میں انجلی سنگھ کی لاش کو ایک کار کے نیچے 10 کلومیٹر تک گھسیٹا جا رہا تھا اور پولیس کی تین گاڑیاں اس گاڑی کو ڈھونڈنے میں ناکام رہی تھیں۔

تفتیش کاروں نے اخبار دی انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ جس چیز نے ان کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالی وہ دو عوامل تھے۔

ایک یہ کہ 31 دسمبر کی رات کو شدید دھند تھی اور یہ حقیقت کہ کار مرکزی سڑکوں سے گریز کرتے ہوئے چھوٹی گلیوں میں گھوم رہی تھی۔

ایک گاڑی کی جانب سے ’لاش کو گھسیٹا جا رہا ہے‘ کا پیغام ملنے کے بعد دہلی کے کنجھوالا چوک، لاڈ پور کٹ (ہوشمبی بارڈر) اور امن وہار کے علاقے میں موجود تین پولیس وینز متحرک ہوئیں لیکن اسے تلاش کرنے میں ناکام رہیں۔

پولیس کو جس مزید ایک اور رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا وہ یہ حقیقت یہ تھی کہ زیادہ تر پکٹس ہریانہ سے دہلی تک سڑک پر تھے، دوسری سمت میں نہیں تھے۔

تفتیش کاروں نے یہ بھی بتایا کہ توجہ مبذول کرانے سے بچنے کے لیے ملزمان نے گاڑی 30-40 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلائی۔

ایک سینیئر افسر نے کہا: ’حادثہ بیرونی دہلی کے کنجھوالا سے 500 میٹر کے فاصلے پر پیش آیا۔ بعد میں گاڑی کنجھا والا کی طرف چل دی۔

’ہمیں شبہ ہے کہ خاتون نے خود کو بچانے کے لیے اٹھنے کی کوشش کی ہوں گی جب وہ گاڑی کے نیچے تھی لیکن ملزمان نے گاڑی چلانا بند نہیں کی اور انہیں گھسیٹتے رہے۔

’سرحد پر ہماری چیکنگ پوائنٹس اور کیمروں نے گاڑی کو دیکھا۔ حادثے اور سکوٹر کے بارے میں کالز کی گئیں۔

ہم نے کار کی تلاش شروع کی لیکن کال کرنے والے اس کی سمت کے بارے میں واضح نہیں تھے، اور ملزمان تنگ گلیوں میں چکر لگاتے رہے۔‘

افسر نے مزید کہا: ’ان کی رفتار بھی 30-40 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی، جس سے ملزمان کی مدد ہوئی کیونکہ اگر کار تیز ہوتی تو اس پر نظر پڑ جاتی۔

’پولیس وینز اس گاڑی کا پیچھا نہیں کر رہی تھیں کیونکہ کال کرنے والے واضح نہیں تھے، بلکہ اس کی بجائے یہ معلوم کرنے کے لیے علاقے کا چکر لگا رہے تھے کہ ہوا کیا ہے… سرد موسم اور دھند کی وجہ سے دکھائی دینے کے مسائل تھے۔‘

نئی سامنے آنے والی سی سی ٹی وی فوٹیج میں ایک پولیس وین کو چند منٹوں کے فرق سے اسی سڑک پر دیکھا گیا جہاں سے واردات میں ملوث بلینو کار گزری تھی۔

ویڈیوز میں بلینو کو دیکھا گیا ہے، جس میں پانچ ملزمان موجود ہیں اور وہ ایک تنگ گلی میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ تقریباً 5-10 منٹ بعد، ایک پولیس وین اسی راستے پر نظر آتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سینیئر پولیس افسران نے بتایا کہ ایک دوسری پولیس وین علاقے میں ایک دوسری کال اٹینڈ کر رہی تھی جب خاتون کو ٹکر ماری گئی اور اسے گھسیٹا جا رہا تھا۔

اخبار نے تحقیقات کے قریب ایک ذرائع کے بارے میں کہا، ’ہمیں فوٹیج مل گئی ہے۔ پولیس ایک جھگڑے کے لیے وہاں پہنچی تھی۔

’غنڈوں نے علاقے میں ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ وہ سکارپیو گاڑی چلا رہے تھے۔ وہ بلینو سے 50-100 میٹر کے فاصلے پر تھے… پولیس نے متاثرہ خاتون کے لاوارث سکوٹر کو دیکھا اور اس کی اطلاع دی۔

’چونکہ کوئی متاثرہ یا عینی شاہد نہیں تھا، اس لیے وہ یہ سمجھے کہ متاثرہ شخص کو ہسپتال پہنچا دیا گیا۔‘

صبح 2.56 بجے سکوٹر کے بارے میں پولیس انٹری کی گئی۔ اس کے بعد مقامی لوگوں نے صبح 3.20 اور 3.30 بجے پولیس کو کال کی لیکن لاش 4.10-4.15 بجے ملی۔

علاقے کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں انجلی کی دوست کو حادثے کے بعد گھر لوٹتے ہوئے دکھایا گیا۔ وہ اس وقت انجلی کے ساتھ موٹر سائیکل پر سوار تھیں، لیکن انہوں نے کسی کو مطلع نہیں کیا کیونکہ وہ ’خوف زدہ‘ تھیں۔

جبکہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں صبح 1.36 بجے کا ٹائم سٹیمپ ہے اور حادثہ رات 2.05 بجے پیش آیا۔

پولیس نے کہا کہ یہ ’تکنیکی خرابی‘ ہے۔ بلینو کو فرانزک جانچ کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔ گاڑی کے نیچے خون کے نشانات پائے گئے ہیں۔

انجلی کے دوست اور ہوٹل مینیجر نے دعویٰ کیا کہ وہ پارٹی کے بعد نشے میں تھیں۔

تاہم رپورٹس کے مطابق پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ان کے خون میں الکوحل کی علامات سامنے نہیں آئیں۔

دہلی کمیشن برائے خواتین کی سربراہ سواتی مالیوال نے بدھ کو لوگوں سے اپیل کی کہ وہ متاثرہ خاتون کو شرمندہ کرنا بند کریں۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے دعوے شرم ناک ہیں اور پوچھا کہ ان کے نشے میں دھت ہونے کا ثبوت کہاں ہیں؟

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین