فیفا افغان خواتین کی فٹ بال ٹیم کو تسلیم کرے: ملالہ

ملالہ یوسفزئی کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس سے فیفا کو دنیا کو یہ پیغام دینا چاہیے کہ خواتین کو کام کرنا چاہیے، کلاسوں میں جانا چاہیے اور فٹبال سٹیڈیم میں کھیلنا چاہیے۔

ملالہ یوسفزئی 28 ستمبر 2022 کو کیلیفورنیا کے بیورلی ہلز میں والس ایننبرگ سینٹر فار دی پرفارمنگ آرٹس میں ورائٹی پاور آف ویمن ایونٹ میں شرکت کر رہی ہیں (اے ایف پی/ مائیکل ٹران)

پاکستان کی نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے انٹرنیشنل فٹ بال فیڈریشن یا فیفا سے کہا ہے کہ وہ افغان خواتین کی فٹ بال ٹیم کو تسلیم کرے۔

ملالہ یوسفزئی نے اپنے ٹوئٹر پیج پر لکھا، ’طالبان افغان خواتین کو عوامی زندگی سے محروم کر رہے ہیں۔ فیفا کے لیے اب یہ اچھا وقت ہے کہ وہ افغان خواتین کی فٹ بال ٹیم کو باضابطہ طور پر تسلیم کرے۔‘

ملالہ یوسفزئی کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس سے فیفا کو دنیا کو یہ پیغام دینا چاہیے کہ خواتین کو کام کرنا چاہیے، کلاسوں میں جانا چاہیے اور فٹبال سٹیڈیم میں کھیلنا چاہیے۔

طالبان حکومت نے افغان خواتین کو جن حقوق سے محروم کر رکھا ہے۔

 

ملالہ نے قیادت کرنے والی افغان ٹیم کی کپتان خالدہ پوپل کی تعریف کی۔ ان دونوں نے یہ درخواست انٹرنیشنل فٹ بال فیڈریشن کے ساتھ مل کر نہیں کی ہے۔

خالدہ پوپل قومی فٹ بال ٹیم کی کھلاڑی اور کوچ ہیں۔

قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ کے بعد فیفا اب خواتین کے ورلڈ کپ پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ یہ گیمز اگلے جولائی میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں شروع ہو رہے ہیں۔

خواتین کی یہ ٹیم بھی دیگر ہزاروں افغانوں کی طرح اگست 2021 میں طالبان کی جانب سے دوبارہ اقتدار میں آنے کے باعث افغانستان چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ یہ ٹیم براستہ طورخم  بارڈر پاکستان پہنچی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 

پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے اس موقع پر اپنے ٹوئٹر پر اس بات کی تصدیق کی کہ افغان خواتین کی فٹ بال ٹیم کی کھلاڑیوں کے پاس افغان پاسپورٹ اور پاکستان کا ویزا ہے۔

افغان خواتین فٹبال ٹیم کی کیپٹن خالدہ پوپل نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد کی تصویر شیئر کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ وہ 79 خواتین فٹبالرز اور ان کے خاندانوں کو افغانستان سے نکالنے میں کامیاب ہوئیں۔

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ کھلاڑی حفاظت کی خاطر ایک سے دوسری جگہ منتقل ہو رہی تھیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ان لڑکیوں کی زندگیاں صرف اس وجہ سے خطرے میں تھی کیونکہ انہوں نے اپنا پسندیدہ کھیل کھیلنے کا انتخاب کیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی فٹ بال