شہزادہ ہیری کے فوجی دعوے صدموں کا ایک احساس

بعض فوجی قطار بنا کر ہیری پر تنقید کر رہے ہیں۔ مجھے ہیری کا تازہ دعویٰ اس شدید صدمے سے نمٹنے کی ایک اور کوشش دکھائی دیتا ہے جو انہیں بچپن میں پہنچا۔

شہزادہ ہیری کی کتاب کا ایک پوسٹر چھ جنوری 2023 کو لندن کے بک سٹور میں (اے ایف پی)

برطانیہ کے شہزادہ ہیری ماضی میں پہنچنے والے صدمے سے عوامی سطح پر نمٹ رہے ہیں اور ان کے اقدامات نے ان مشکلات کے بارے میں بات کی ہے، جن کا ملک بھر کے سابق فوجی سامنا کرتے ہیں۔

بعض فوجی قطار بنا کر ہیری پر تنقید کر رہے ہیں۔ مجھے ہیری کا تازہ دعویٰ اس شدید صدمے سے نمٹنے کی ایک اور کوشش دکھائی دیتا ہے جو انہیں بچپن میں پہنچا۔

25 طالبان کو ہلاک کرنے کا دعویٰ، چاہے ان کی حقیقت کچھ بھی ہو، نہ صرف غیردانشمندانہ بلکہ برطانوی مسلح افواج کے غیر اعلانیہ ضابطے کی بھی خلاف ورزی ہے۔ میرے اندر موجود خبطی شخص کو شبہ ہے کہ کتاب کے مدیر سیکس پر مبنی کچھ مواد چاہتے ہوں گے لیکن ہیری کو ایسا کرنے سے انکار کر دینا چاہیے تھا۔

ایک غیر تحریری ضابطہ موجود ہے کہ ایسی باتوں پر کبھی کھل کر بات نہیں کی جاتی۔ بچے اور سادہ لوح بالغ افراد جن میں اکثر فہم کی کمی ہوتی ہے، مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ’آپ نے کتنے لوگوں کو مارا؟‘جب میں سوال پر توجہ نہیں دیتا تو وہ کچھ مایوس دکھائی دیتے ہیں۔ اور شاید وہ خاموشی کو اثبات سے تعبیر کر کے زیادہ جوش کا مظاہرہ کریں۔ ایسا بھی نہیں ہے۔

’ہلاکتوں کی تعداد‘ کے بارے میں فوج میں کسی سمجھدار شخص کے بارے میں پوچھیں تو وہ آپ کو بتائیں گے کہ یہ بات کمپیوٹر گیمز اور ٹاپ گن نامی فلم کے لیے مخصوص ہے۔ کسی کی جان لینا بہت سنجیدہ معاملہ ہوتا ہے، خاص طور پر فوجی حوالے سے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ اس کے بارے میں شیخی ماری جائے یا لوگوں کو بتایا جائے۔

ہلاکتوں کی تعداد کے بارے میں سرعام بات کرنے پر اکثر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی شخص اپنی سروس سے جڑے یا شاید اس سے پہلے کے بڑے صدمے سے نمٹ رہا ہے۔ سابق فوجیوں کو جس صدمے کا سامنا ہوتا ہے وہ صرف افغانستان اور عراق جیسی جنگوں کے ساتھ  نہیں جڑا ہوتا۔

افواج میں شامل ہونے سے پہلے کے تجربات اتنی ہی معلومات فراہم کرتے ہیں جتنا سابق فوجیوں کا فوج کی ملازمت میں گزرا ہوا وقت۔

ہیری بچپن میں تلخ تجربات (اے سی ای ایس) سے گزر چکے ہیں۔ رفاہی ادارے ’3 پلرز پروجیکٹ چیریٹی‘ میں اپنی تحویل میں موجود نوجوانوں کے ساتھ کام میں، کسی کو وہ سہولتیں نہیں ملیں جو ہیری کو میسر ہیں۔

ہم اے سی ای ایس کے بارے میں کھل کر بات کرتے ہیں۔ والدین کی شراب نوشی اور منشیات کی لت، بدسلوکی، نظر انداز کیا جانا – اور اہم بات کہ والد یا والدہ سے محروم ہو جانا، یہ تمام باتیں بچپن میں صدمے اور ناخوش گوار تجربے کا سبب بنتی ہیں۔

ان سب کو اکٹھا کرنے کے بعد آپ دیکھنا شروع کریں گے کہ ان باتوں نے کسی بالغ شخص کی زندگی میں کیا کردار ادا کیا۔ منشیات کا استعمال، تشدد، غیر ذمہ دارانہ جنسی رویہ اور بالآخر مزاج میں پی ٹی ایس ڈی (پوسٹ ٹرومیٹک سٹریس ڈس آرڈر یا صدمے کے نتیجے میں پیدا ہونے والا نفسیاتی مسئلہ) کا ممکنہ میلان۔

بہت سے سابق فوجیوں کے معاملے میں یہ عالمی سٹیج پر اوپرا انٹرویوز، نیٹ فلکس یا کتابوں کے معاہدوں میں سامنے نہیں آتا بلکہ ہم ان کے صدمے کے نتائج کو بے گھر ہونے، شراب کی لت اور خاندان کے ٹوٹنے کی شکل میں دیکھتے ہیں۔

فوجیوں کا ختم نہ ہونے والے غم اکثر اس احساس میں چھپ جاتا ہے کہ ان کا تعلق فوج سے ہے۔ فوج عملاً ایک خاندان کی طرح کام کرتی ہے جس سے غم کا احساس پیدا ہوتا ہے اور جب لوگ فوج چھوڑ دیتے ہیں تو یہ ختم ہو جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگرچہ میں تمام سابق فوجیوں کی بات نہیں کر سکتا لیکن مجھے لگتا ہے کہ ہیری سے  امید وابستہ کی گئی ہے کہ وہ سابق فوجیوں کے معاملات میں راستہ دکھانے والا بنیں گے۔ یہ ہر لحاظ سے ضائع ہونے والا موقع ہے۔ ہیری کے ’انوکٹس گیمز پروجیکٹ‘ کا خاصا اثر ہوا ہے لیکن مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے جو فوجی قیادت کے دل میں رہے گا۔

یہ آٹوگراف لینے اور ہاتھ ملانے جیسا بار بار کیا جانے والا بے کشش کام ہے لیکن وہ لوگ جن کو اس کی اشد ضرورت ہے ان کے لیے اس میں گہرائی پائی جاتی ہے۔

اگرچہ میں مدد نہیں کر سکتا لیکن سوچتا ہوں کہ یہ برطانیہ میں بحر اوقیانوس کے اس پار سے ہونے والی تنقید کا نشانہ ہے، جس میں سے کچھ کا اثر برطانوی نفسیات کے اندر تک ہوتا ہے، یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ ہیری اپنے خاندان کے ساتھ صلح کرنے کا موقع ختم کر رہے ہیں اور اصل میں یہی ان کا دکھ ہے۔

ہیری کی فوج میں ملازمت کا معاملہ غیر منصفانہ طور پر ضرورت سے زیادہ شیئر کیے جانے  کے باوجود، اب بھی سابق فوجیوں کو ہیری کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے، مستقبل میں انہیں ضرورت پڑنے پر ان کو مدد کی پیشکش کرنی چاہیے۔

آیے اس ہسٹیریا سے آگے جاتے ہیں کہ جو کچھ حقیقت میں ہے وہ محض بہت افسوس ناک قصہ ہے۔

شہزادہ ہیری کے معاملے سے آگے نکل کر، یہ کہانی دنیا بھر کے تمام سابق فوجیوں کے لیے ایک کال ہونا چاہیے کہ وہ ان لوگوں تک پہنچیں جن کے ساتھ وہ کام کر چکے ہیں۔ ہم سبھی مختلف انداز میں صدمے کا شکار ہوتے ہیں اور بعض اوقات لوگوں کو ہمدردی رکھنے والے کان اور معافی کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔


برطانوی فوج کے سابق کیپٹن مائیک کروفٹ دو مرتبہ افغانستان میں فرائض انجام دے چکے ہیں۔ اب وہ انسانی کارکردگی سے متعلق کمپنی ایموڈیگو کے چیف ایگزیکٹیو افسر ہیں۔ انہوں نے کریمنل جسٹس چیریٹی 3 پلرز پروجیکٹ کی بنیاد رکھی۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ