حکومت پاکستان نے ملک کے تین بڑے ایئرپورٹس کے آپریشن محدود عرصے کے لیے آؤٹ سورس کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس فیصلے کےبعد سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ حکومت کون سے ہوائی اڈے، کن شرائط پر آؤٹ سورس کرنے جا رہی ہے اور اس سلسلے میں کمپنیوں کو کیا مشکلات درپیش ہیں۔
ہوائی اڈے آؤٹ سورس کرنے کا کیا مطلب ہے؟
سول ایوی ایشن کے ترجمان سیف اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ ’ایئرپورٹس کی نجکاری نہیں کی جا رہی، نجکاری اور آؤٹ سورس میں بہت زیادہ فرق ہے۔ آؤٹ سورسنگ کا مقصد مسافروں کو ملکی ایئرپورٹس پر اعلی معیار کی بین الاقوامی سہولیات فراہم کرنا ہے۔‘
ان کے مطابق: ’آؤٹ سورسنگ کا عمل مسابقت کی بنیاد پر ہوتا ہے جس میں سب سے بہتر بولی لگانے والے کو کامیاب قرار دیا جاتا ہے۔ اس عمل کے لیے دنیا میں رائج مختلف طریقہ کار میں سے سب سے موزوں اور قابل عمل طریقہ کار کو میرٹ پر منتخب کیا جاتا ہے۔‘
ترجمان نے مزید بتایا: ’یہ کہنا کہ ایئرپورٹس دوسرے ممالک کو دیے جا رہے ہیں، درست نہیں، دنیا کے کئی بین الاقوامی ایئرپورٹس کا آؤٹ سورسنگ کا نظام اسی ذریعے سے کیا جاتا ہے۔‘
دوسری جانب وفاقی وزیر برائے ہوا بازی خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ’ملک کے ایئرپورٹس کو برطانیہ، یورپ، جرمنی، برازیل اور انڈیا کے شہروں دہلی اور ممبئ کی طرز پر آؤٹ سورس کیا جائے گا۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے واضح کیا کہ ’ایئرپورٹس کی نجکاری نہیں ہو رہی، اس سے متعلق پروپیگنڈا قطعی بے بنیاد ہے۔‘
انہوں نے بتایا: ’قطر، متحدہ عرب امارات سمیت تمام ایئرپورٹس کے آپریٹرز کو بولی لگانے کے لیے بلایا جائے گا اور سب سے بہتر بولی لگانے والے کو ہی ایئرپورٹس آؤٹ سورس کیے جائیں گے۔ آوٹ سورسنگ سے ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری آئے گی۔‘
ایوی ایشن کے شعبے پر گہری نگاہ رکھنے والے صحافی طاہر عمران کے مطابق: ’آؤٹ سورس کرنے کا مطب ہے کہ ایک کمپنی سول ایوی ایشن کی جگہ ہوائی اڈے کے ٹرمینل اور آپریشن کو چلائے گی۔ اس کے علاوہ یہ کمپنی ایئرپورٹ پر ڈیوٹی فری، ٹرانزٹ ہوٹل، لاؤنجز اور دوسرے کمرشل کاروبار کو لائے گی جیسا کہ ہمیں خلیجی یا دوسرے ممالک کے بڑے ہوئی اڈوں پر نظر آتا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’یہ کمپنیاں ایئرپورٹ کی تعمیر و مرمت کی بھی ذمہ دار ہوں گی اور سہولیات میں بہتری لانے کی بھی پابند ہوں گی، جس سے ہوائی اڈے پر، جو اب بالکل ویران اور خالی لگتے ہیں، کافی بہتری آئے گی۔‘
ماضی میں ایئرپورٹ آوٹ سورس کیوں نہیں کیے گئے؟
سال 2017 میں بھی ایئرپورٹس کو آؤٹ سورس کرنے کا معاملہ زیر غور آیا تھا۔
اس حوالے سے صحافی طاہر عمران نے بتایا کہ ’سال 2017 میں جب آؤٹ سورسنگ کا عمل شروع کیا گیا تو اس وقت ایک عجیب و غریب ٹینڈر جاری کیا گیا جس میں رکھی گئی شرائط معمول سے ہٹ کر تھیں اور واضح تھا کہ اسے جاری کرنے والے اس عمل میں سنجیدہ نہیں ہیں۔
’اس کے باوجود ترک ہوا المانلری ہولڈنگ کی بولی موصول ہوئی جو دنیا کے بہترین ایئرپورٹ آپریٹرز میں سے ایک ہے، مگر اسے بھی مسترد کر دیا گیا اور سول ایوی ایشن میں ڈی جی عاصم سلیمان کے خلاف کھلی بغاوت شروع ہو گئی، جس کے بعد وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے انہیں عہدے سے برخاست کر دیا۔ اس وقت تک مسلم لیگ ن کی حکومت کے ہاتھ پاؤں باندھے جا چکے تھے، جس کے نتیجے میں ان کی نہ تو ہمت تھی اور نہ کوشش تھی کہ وہ اس پر عمل درامد کرواتے۔‘
طاہر عمران نے مزید بتایا کہ ’سول ایوی ایشن چلانے والے کے پاس نہ تو ایئرپورٹ چلانے کا تجربہ ہے، نہ ہی یہ ان کا کام ہے۔ سول ایوی ایشن ایک نگران یا ریگولیٹر ہے، وہ کیسے آپریٹر کے طور پر کام کر سکتا ہے؟ اگر کسی کو سول ایوی ایشن سے مسئلہ ہو گا تو وہ کیا اسی کے پاس حل کے لیے جائے گا؟‘
دوسری جانب سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نےایئرپورٹس آؤٹ سورس نہ ہونے میں درپیش مسائل پر انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’ایئرپورٹس کو آئیسولیشن میں آؤٹ سورس نہیں کیا جاتا، اس کے ساتھ ہوا بازی کی پالیسی بھی منسلک ہوتی ہے کہ ساتھ ایئرلائنز کو آنے دیا جائے گا یا نہیں۔ دوسرا معاملہ پی آئی اے کی جانب سے ادائیگیوں کا ہوتا ہے۔ کمپنیوں کو اس سے متعلق حکومتی ضمانت درکار ہوتی ہے۔‘
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ’اسلام آباد ایئرپورٹ پر وینڈرز کے معاہدے نہیں ہیں، اس لیے ایئرپورٹس کا ریوینیو وینڈرز سے آتا ہے۔ باقی ایئرپورٹس پر نہ ہی جگہ ہے اور نہ ہی ان سے لانگ ٹرم معاہدے کیے ہوئے ہیں۔ اسی وجہ سے وینڈرز باقی ایئرپورٹس میں دلچسپی نہیں لے رہے تھے، صرف اسلام آباد ایئرپورٹ میں دلچسپی لے رہے تھے۔‘
سابق وزیراعظم نے بتایا کہ ’ایئرپورٹس میں بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے مگر ایئرپورٹس بنیادی ضروریات نہیں رکھتے۔ انہوں نے کہا کہ ’اسلام آباد ایئرپورٹ پر ہزاروں ملازمین کام کرتے ہیں لیکن وہاں ان کے لیے کوئی باتھ روم، کیفے ٹیریا یا بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے۔ ایئرپورٹس کی کنسٹرکشن ہی خراب ہے۔ ان پر لگائے گئے سامان کی وارنٹی ختم ہو چکی ہے، باتھ رومز میں سنک اور ڈبلیو سیز وہ لگی ہوئی ہیں جو گھروں میں استعمال ہوتی ہیں یہ چھ ماہ میں ختم ہو جائیں گی۔‘
کمپنیوں کو کون سی مشکلات درپیش ہیں؟
شاہد خاقان عباسی نے ان ایئرپورٹس کو سنبھانے میں دلچسپی رکھنے والے متوقع صارفین کو درپیش مسائل کے حوالے سے کہا کہ ’کچھ کمپنیوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ آپ سنجیدہ ہیں تو میں نے ڈی جی سے پوچھا تو بتایا گیا کہ ہم ایک کنسلٹنٹ کی خدمات لیں گے، وہی سٹرکچر بنائے گا اور اسی کے تحت آؤٹ سورس کریں گے۔‘
طاہر عمران کا کہنا تھا کہ ’یہ مخلوط حکومت ہے جو ماضی کی ن لیگ کی حکومت سے بھی کمزور وکٹ پر کھیل رہی ہے۔ جس طرح کی باتیں خواجہ صاحب کر رہے ہیں یہ رٹی رٹائی کہانی ہے جو 2015 سے چل رہی ہے۔ نہ پہلے ایسا کچھ ہوا، نہ اب ایسی امید ہے کہ یہ حکومت یا یہ وزیر ایسا کچھ کر سکیں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماہرین کے مطابق پاکستانی ہوائی اڈوں پر صرف سول ایوی ایشن ہی کام نہیں کرتی بلکہ مختلف ایجنسیاں کام کرتی ہیں، جن میں اے ایس ایف اور ایف آئی اے وغیرہ شامل ہیں۔ ان تمام ایجنسیوں کے پاس ایئرپورٹ پر اختیارات ہوتے ہیں، مگر ان میں ہمیشہ سے کوآرڈی نیشن کا فقدان رہا ہے۔ ایئرپورٹ پر انٹیلی جنس بیورو اور انٹر سروسز انٹیلی جنس بھی ہے جبکہ اس کے برعکس ایئرپورٹ کے اندر کی سکیورٹی ساری دنیا میں پرائیویٹ سیکٹر ہی کرتا ہے۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ ’ہمارے ایئرپورٹس سارے صرف سویلین کے پاس نہیں بلکہ کچھ ایئرفورس کے ساتھ مل کر چلائے جاتے ہیں، تو واضح کرنا پڑے گا کہ جو ایئرپورٹ آؤٹ سورس کر رہے ہیں وہ کیسے چلے گا؟ کیا اس میں رن وے دے سکتے ہیں؟ کیونکہ ہمارے ملٹی یوز ایئرپورٹس بھی ہیں، وہ ہم سول سیکٹر کو نہیں دے سکتے، جن میں ایئرفورس کے جہاز بھی آتے ہیں، اس لیے رن وے ہم نہیں دے سکتے تو اب جو ان چند ہوائی اڈوں کی آؤٹ سورسنگ ہوگی وہ محدود رہ جائے گی جن میں ٹرمینیل بلڈنگ اور کار پارک آتے ہیں۔‘
ان کے مطابق: ’سول ایوی ایشن کی زمین کا ریٹ اتنا زیادہ ہے کہ وہاں کوئی وائیبل کمرشل ڈیویلپمینٹ نہیں ہو سکتی۔ جو ایئرپورٹ کے اندر آپریٹرآئے گا وہ کارگو ٹرمینل بنانے، کیٹرنگ کمپنی لانے یا مینٹی ننس فیسلیٹی لانے کا کہے گا۔ وہاں اتنی مہنگی زمین ہے کہ کچھ بھی کرنا ناممکن ہے۔ اس سمیت کئی ایسے مسئلے ہیں کہ اگر کوئی کمپنی آئے گی تو بہت کم بولی لگائے گی۔ پھر آپ کو پیسے دے کر ایئرپورٹ چلوانے پڑیں گے، جو برا آپشن نہیں ہے لیکن ہم وہ کر نہیں سکتے۔‘
شاہد خاقان عباسی نے ایئرپورٹ آؤٹ سورس نہ ہونے کے بارے میں جہاں کئی حقائق بتائے، وہیں متعلقہ وزارت کو ماضی میں بھی آؤٹ سورس نہ ہو پانے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایئرپورٹ آؤٹ سورس کرنے سے قبل ان تمام مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔